تحریر: محمد جسیم اکرم مرکزی
رابطہ نمبر: 9523788434
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
ارباب سِیَر و اصحاب تواریخ سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ ایک بہت بڑی جماعت جو صوبہ بہار میں آباد ہے اور قوم "ملک” کے نام سے مشہور ہے یہ چند صدی پہلے ایسی معزز اور ممتاز جماعت تھی کہ اس کے اعزاز و اقتدار کے زریں نقوش صفحاتِ تاریخ میں ہنوز جلوہ نما اور اس کے مہتم بالشان و پر شوکت واقعات سے تواریخ کے اوراق اب تک مزین و روشن ہیں،
لیکن اس وقت اس جماعت کی شوکت و عظمت اور جاہ و حشمت کا آفتاب زوال پر ہے اور عروج و اقبال کا ستارہ گردش میں ہے، جن کے باعث اس کے پہلے تمام خصوصیات سے عام نا واقفیت ہو گئی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ انتہا یہ ہے کہ لوگ اس کے حسب و نسب تک بھول بیٹھے ہیں،
خیر اگر دوسرے دوسرے ان کا حسب و نسب بھول گئے تو چنداں تعجب نہیں لیکن حیرت تو اس پر ہے کہ خود اس جماعت نے اپنی گزشتہ شاندار روایات، آبا ؤ اجداد کے کارنامے حسب و نسب سب کچھ بھلا دیا اور اسے یہ نہیں معلوم کہ اس کی اصلیت کیا ہے اور ملک کیوں کہلاتی ہے؟
اس وقت میرے مطالعہ کے میز پپر جو کتاب کہکشاں کی طرح ضوفشاں ہے وہ ہے "تاریخ ملک صوبہ بہار” اس کے مصنف علامہ مَلِک عبد الحلیم خواجہ پوری گیاوی علیہ الرحمہ ہیں 1379ھ بمطابق 1952ء کی یہ تصنیف ہے 71 برس پہلے کی چیز ہونے کے باوجود اس پر قدامت کا کوئی اثر نہیں ہے 186 صفحات کی یہ کتاب تاریخی حقائق کا وہ سمندر ہے کہ غوطہ زن ہوتے جائیے اور معارف لولو ؤ مرجان سے دامن سجاتے جائیے جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے یہ کتاب ریاست بہار کے مَلِک خاندان اور اس خاندان کے مورث اعلیٰ سید محمد ابراہیم ملک بیا و بنشیں علیہ الرحمہ کے عظیم کارنامے، تاریخی نوادرات ، تہذیبی باقیات کا بھر پور احاطہ کرتی ہے اس کتابِ مستطاب میں دلائل و براہین کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بہار شریف میں جو ملک خاندان ہے وہ فاتح بہار شریف قدوۃ العارفین زبدۃ السالکین حضور سید محمد ابراہیم ملک بیا و بنشیں علیہ الرحمہ کی اولاد ہے اور موصوف علیہ الرحمہ کا شجرۂ نسب ساتویں پشت میں حضور غوث اعظم سے جا ملتا ہے (شجرۂ نسب کے لیے کتاب کی طرف رجوع کریں)
مصنف ذی وقار کی عرق ریزی نے کتاب کو مختلف حوالوں اور دلیلوں سے ایسا کَس دیا ہے کہ کتاب درجۂ استناد کو پہنچ گئی ہے،
چنانچہ مصنف علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں
"شمس العلما حضور امام بہاری اپنی کتاب "بہارستانِ سخن” میں لکھتے ہیں راقم کو ایک اپنی جواری قوم پر نہایت افسوس آتا ہے کہ اس نے اپنے خاندان سیادت کے شرف کو کمال نادانی سے ضائع کر ڈالا ہے، یہ قوم اس دیار میں ملِک کہلاتی ہے اس قوم کے بزرگان شاہی زمانے میں بڑے اہل حکم و رقم تھے چنانچہ ان میں سے ایک صاحب سید ابراہیم نامی بڑے صاحب ثروت تھے یہ صاحب قصبہ بہار میں آسودہ ہیں ان کو ملک کا خطاب بادشاہ کے حضور سے ملا تھا اس لیے ملک بیو کے نام سے آج تک مشہور دیار و امصار ہے ان کی اولاد خطاب مورث کے سبب سے ملک کہلاتی ہے اور اس ملک کے سکنی (رہنے والے ) نا واقفیت کے باعث قوم ملک کو مجہول قوم سمجھتے ہیں حالانکہ یہ لوگ سادات سے ہیں” (تفصیل کے لیے کتاب کی رجوع کریں)
یہ خاندان نجیب الطرفین سید ہے اس خاندان کے بعض معزز ہستیوں کے اسما یہ ہیں
(1) مجدد قرن عاشر حضور پُرنور علامہ قاضی محب اللہ بہاری مصنف "مسلم الثبوت” و "سلم العلوم”
(2) امام اعظمِ وقت خلیفۂ اعلی حضرت ملک العلما حضرت علامہ مفتی سید ظفر الدین بہاری فاضل بہار علیہ الرحمہ مصنف "صحیح البہاری”
(3) حافظ بخاری علامہ قادر بخش سہسرامی جو اعلی حضرت کے معاصر محبین میں سے ہیں ان کے بارے میں یہ بات دور تک مشہور تھی کہ آپ کو مکمل بخاری شریف مع حاشیہ و بین السطور ازبر تھی
(4) حضور علامہ ملک عبد الحلیم خواجہ پوری گیاوی علیہ الرحمہ مصنف "تاریخ ملک صوبہ بہار”
(5) حضور سراج ملت علامہ الحاج الشاہ سید سراج اظہر قادری رضوی علیہ الرحمہ
جو حضرت ملک بیا و بنشیں علیہ الرحمہ کے شجرۂ نسب کی شاداب شاخ ہیں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نایاب شخصیتیں ہیں جو گوشۂ گمنامی میں عشرت منامی کے مزے لوٹ رہے ہیں،
حضرت سید ابراہیم ملک بیا و بنشیں علیہ الرحمہ کی اولاد نے شاہی لقب ملک کو اتنا اہم جانا کہ لفظ سید پر ترجیح دے دیا پھر دھیرے دھیرے سید کے بجائے خانوادۂ سید ابراہیم کے تمام افراد اپنے آپ کو ملک لکھنے لگے امتداد زمانہ نے اس خانوادے کی سیادت دھوندلی کر دیا، یہی وجہ تھی کہ جب میں چھوٹا تھا اور گھر میں کبھی برادری کی بات چھڑ جاتی اور اولیت و مرتبت کی بات آجاتی تو میری والدہ ماجدہ کہتی تھی سب سے زیادہ *مہتم بالشان عزت و اکرام والی قوم *ملک* ہے (کیونکہ میری ماں بھی ملک ہے) میں اس وقت اتنا نہیں جانتا تھا تو میں اپنی ماں سے کہتا تھا نہیں ماں ایسا نہیں ہے بلکہ سب سے اعلی قوم سید ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب سمجھ میں آیا کہ نہیں میری ماں سچ کہتی تھی سب سے اعلی ملک ہے کیونکہ ملک کوئی غیر نہیں ہے بلکہ اسی خاندان سیادت کے چشم و چراغ ہیں بس یہ قوم امتداد زمانہ کی وجہ سے اپنی تاریخ بھول گئی ہے،
اسی لیے تو حضرت شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں
نامِ رفتگاں ضائع مکن
تا بماند نامِ نیکت برقرار
اگر اپنا نیک نام باقی رکھنا چاہتے ہو تو اپنے نیک پیش رؤوں کے نام کو زندہ رکھو اس خدمت کی وجہ سے تمہارا نام بھی زندہ ؤ پائندہ ہو جائے گا،
شور و فغاں کا ختم سبھی سلسلہ کرو
تاریخ سامنے ہے پڑھو فیصلہ کرو
(جسیم)
اللہ جل و علا سے دعا ہے کہ ہمیں "انزلوا الناس منازلھم” کا مصداق بنائے اور اس قوم کی شایان شان عزت و اکرام کرنے کی توفیق و رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم