ایک نیا حربہ حکومتِ ہند کا "وقف ترمیمی بل” کی صورت میں ظہور پذیر ہوا ابھی تک تو نت نئے ہتھکنڈے اپنائے ہی جارہے تھے مسلمانوں پر اور انکے مذھب وملت پر، مزید ملک کی امن و شانتی اور مذھبِ اسلام کا شیرازہ منتشر کیا ہی جارہا تھا جو احباب پر مخفی نہیں، ہر ذی شعور و ضمیر کو ان تمام تر خرافات اور تخریب کاریوں کا بخوبی علم ہوگا ہی قطعِ نظر اس کے کچھ دنوں قبل ایک نیا قانون تشیکل دیا گیا جسے "وقف ترمیمی بل” کے نام سے موسوم کیا گیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ "وقف ترمیمی بل” ہے کیا ؟ اسکے کیا مضرات ہیں؟
کیا اس قانون میں کوئی پوشیدہ حکمت ہے؟
کیا ملک و ملت اور جمہوریت کی فلاح و بہبود سے اس قانون کا کوئی ربط ضبط ہے؟
کیا یہ ترقی کا نیا ذریعہ ہے ؟
کیا سیکولرازم کا اس بل میں جمہوریت ھند کے آئین کا ملاحظہ کیا گیا ہے ؟
مزید سوالات پہ سوالات ذہن پر حاشیہ نشین ہورہے ہیں خیر اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کیا مذکورہ سوالات جو مرتب کئے میں نے ان میں کسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ قانون تشکیل پایا یا پھر فراعنہ حکومت کا یکطرفی اور یکجہتی فیصلہ ہے، میں اپنی تخیمنہ کاری، قیاس آرائی اور اس قانون سے متعلق معلومات کے مطابق برجستگی کے ساتھ یہی جواب دوں گا کہ آسان لب و لہجہ میں اور مختصرا کہا جائے تو "وقف ترمیمی بل” ایک ایسا قانون ہے جس سے مسلمانوں کے وقف کردہ جائداد، مساجد، مدارس، خانقاہیں، درگاہیں الغرض جملہ موقوفہ و موھوبہ جائداد حکومت کی تحویل میں آجائے گی اور سارا باگ ڈور حکمرانوں کے پلید ہاتھوں تھما دیا جائے گا، جیسی مرضی، من چاہا اور پتہ نہیں کیا کیا تخریب و فساد مچائیں گے۔
اس قانون پر تو کوئی فائدہ مشترکہ طور پر بنگاہِ جمہوریت کے مرتب ہوتا نظر نہیں آتا ہاں ایک قوم کا فائدہ دکھتا رہا ہے اور دوسرے قوم کے لئے مضرات ہی مضرات ہیں واہ رے قانون کے رکھوالے اور قانون ساز اب کہاں گئیں جمہوریت آئین آئین کرنے والے وہ تو خود آئینِ ہند کے روادار نہیں میں نے پہلے بھی کہا تھا "جب چور کرے رکھوالی تو چوری کاہے نا ہوئے” خیر عقلمنداں را اشارہ کافیست۔
ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس قانون میں کوئی حکمت ہے جو پوشیدہ اور مخفی ہو اور ظاہر اس حکمت کی خلاف ورزی کررہی ہو نیز ہماری سمجھ سے پرے ہو تو یہی بات ذہن میں آئی کہ لگتا ہے یہ واقعہ عقلِ متوسط سے پرے ہے کہ صرف آئین سازوں کو معلوم ہے اور آئین ساز عقلِ علیاء رکھتے ہیں جو کہ ظاہر البطلان ہے زیرانکہ ہم نے اپنے ماتھے کی نگاہوں اور اپنی شاہد نگاہوں سے ہی اس معمہ تدارک کرلیا کہ ان میں تو کئیوں کے پاس سرٹیفیکیٹ ہی نہیں کتنے جعلی ڈگری لئے گھوم رہے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ کوئی حکمت وکمت نہیں فقط قومِ مسلم سے حسد ہے مگر کیا کہیں !!!!
ایک سوال یہ بھی تھا کہ ملک کی فلاح و بہبود سے منسلک ہو شاید یہ قانون مگر یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں کچھ بھی نہیں فقط جریمانہ اور غاصبانہ طریق پر مسلمانوں کے املاک کے ہڑپنے اور قبضہ کرنے کے اور ملک کی فلاح و بہبود سے اس قانون کا دور دور تک کوئی ربط ضبط نہیں بلکہ یہ تو مابین الاقوام انتشار و افتراق برپا کرنے کا ایک موثر اور کاریگر طریق ہے ترقی کا کوئی نیا ذریعہ اور سبب وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے یاد رہے۔
آخری بات یہ کہ اس قانون میں سیکولرازم اور جمہوریت کا ایک بھی پہلو پیشِ نظر اور التفاتِ توجہ نہیں رکھا گیا ہے ساتھ آئین کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا گیا ہے ہم حکومتِ ھند سے اولا گزارش کرتے ہیں کہ اس بل کو مسترد فرماکر مسلمانوں کی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے اور اپنی قوم سے بھی عرض گزار ہوں کہ وہ اپنی مردہ ضمیری کو زیست کا جامہ پہنا کر زندگی کا ثبوت دیں اور اپنی رائے کو جو مختلف تنظیموں، مدارس اور خانقاہوں کی جانب سے QR کوڈ شائع کیا گیا درج کریں اور آن لائن اس خباثت بھرے قانون کے خلاف صدائے بازگشت بلند کریں فقط آج ہی کا دن باقی ہے کمپلین کرنے کے لئے التفات کریں۔
ازقلم: محمد اختر رضا امجدی
متعلم :- جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی الھند