تحریر: محمد حبیب القادری صمدی ( مہوتری، نیپال)
ریسرچ اسکالر جامعہ عبد اللہ بن مسعود (کولکاتا)
عمدۃ المحققین، اعلم العلماء، سند المتکلمین، صدر مجلس علماے اہل سنت حافظ کلام باری و حافظ بخاری سید شاہ خواجہ عبد الصمد چشتی علیہ الرحمہ ایک ممتاز عالم دین، بے مثال مصنف، باکمال خطیب اور بلند پایہ محقق تھے۔ علم و حلم، زہد و تقویٰ اور فکرو بصیرت آپ کے نمایاں اوصاف ہیں۔ یقینا آپ علم و فضل کے ایسے درخشندہ آفتاب تھے جنہوں نے بیش بہا دینی و ملی خدمات انجام دیں اور زبان و قلم کے ذریعے پوری زندگی اسلام و سنیت کی تبلیغ کرکے لوگوں کے دلوں کو منور کر دیا۔
حضور حافظ بخاری علیہ الرحمہ کا علمی مقام کیا تھا ، فقیر کما حقہ بیان نہیں کر سکتا ۔ بس یوں سمجھ لیجیے! یہ منہ اور مسور کی دال۔ ہم ذرہ ہاے خاک ہیں اور وہ آفتاب عالم تاب ۔ آپ بیک وقت محدث، محقق، مفتی، مصنف، مترجم، مدرس، شاعر، ادیب، خطیب اور بے شمار اوصاف و کمالات کے جامع و حامل تھے۔ آپ علیہ الرحمہ کا ہم عصر علما میں کیا وقار تھا ، علمی مقام کیا تھا اور آپ کی فقہی بصیرت کیا تھی راقم السطور ہلکی کی جھلک پیش کر رہا ہے:
‘‘مجلس ندوۃ العلما کے قیام کے بعد اس کا پہلا اجلاس کانپور میں ۱۳۱۱ھ میں ہوا۔ ندوۃ العلما کے ناظم مولانا محمد علی مونگیری خلیفہ حضرت مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی اور صدر مولانا لطف اللہ علی گڑھی جج ہائی کورٹ حیدراآباد منتخب کیے گئے۔ اس مجلس کے اراکین کے انتخاب میں بڑی بد نظمی ہوئی۔ سنی، وہابی، غیر مقلد رافضی یہاں تک کہ ایک عیسائی پادری کو بھی اس کا ممبر بنادیا گیا۔ یہ چیزیں ایسی نہیں تھیں جن پر علماے حق خاموشی اختیار کرتے ۔ چنانچہ سرخیل علماے اہل سنت تاج الفحول حضرت مولانا عبد القادر بدایونی اور مقتداے اہل سنت مجدد دین وملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے اس مجلس سے اختلاف کیا اور ان معجون و مرکب ممبران کے انتخاب کو غلط ٹھہرایا۔ اسی مسئلہ پر حضور حافظ بخاری خواجہ سید عبد الصمد چشتی رضی اللہ عنہ اور ناظم ندوہ مولانا محمد علی مونگیری کے درمیان خط و کتابت کا طویل سلسلہ چلا۔ حضور حافظ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطوط کے ذریعہ ناظم ندوہ کے موقف کو غلط ٹھہرایا اور انہیں لاجواب کردیا’’۔(حیات اکبر المشایخ، ص:۳۳/۳۴)
حضور حافظ بخاری علیہ الرحمہ کے علم وفضل کی جولانیت کا اندازہ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ:
‘‘زمانہ طالب علمی ہی میں مولوی امیر حسن سہسوانی کے پیدا کردہ فتنہ‘‘شش مثل’’ کا منہ توڑ جواب دیا ،اور ایک موقع پر ان سے اس موضوع پر مناظرہ کرکے انہیں بے بس اور ساکت و صامت کردیا۔ آپ کی اخلاص کی برکت کہ اللہ تعالیٰ نے اس فرقے کا نام و نشان روئے زمین سے مٹا دیا’’۔(حیات اکبر المشایخ، ص:۳۲)
دیوانگان عشق محمد کو دیکھ کر
گھبراگئی ہے گردش دوراں کبھی کبھی
حضرت ظہیر السجاد صاحب ‘‘ ملفوظ مصابیح القلوب’’ میں حضور خواجہ مصباح الحسن چشتی علیہ الرحمہ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
‘‘ایک مرتبہ حضرت حافظ بخاری علیہ الرحمہ جھانسی تشریف لے گئے، میں حضرت کے ساتھ ہی تھا، وہاں اس زمانے میں نواب چھٹن صاحب سنی المذہب اور قادری المشرب تھے۔ عربی کے فارغ التحصیل اور مولانا عبد الحق خیرآبادی کے فلسفہ اور منطق میں شاگرد تھے۔ انہوں نے حضرت قبلہ عالم کی تشریف آوری کے بعد حضرت کی بارگاہ میں حاضری دینا شروع کیا، روزانہ بلاناغہ یہ معمول تھا کہ بعد نماز فجر آتے، کم سے کم دوگھنٹہ حاضر رہتے اور عصر کی نماز حضرت کی اقتدا میں پڑھتے اور بعد نماز مغرب واپس ہوجاتے، حضرت قبلہ عالم تقریبا ایک ماہ سے زائد وہاں تشریف فرما رہے۔ ایک روز نواب صاحب حسب معمول بعد نماز فجر حاضر ہوئے اور اپنے دادا استاذ امام منطق و فلسفہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کا رسالہ ‘‘بالروض المجود فی وحدۃ الوجود’’ لائے اور عرض کیا میں اسے سمجھنا چاہتا ہوں ، حضرت نے بغیر مطالعہ فرمائے اور نظر ڈالے فرمایا کہ پڑھیے انہوں نے بسم اللہ کی ‘‘ب’’ سے شروع کیا ۔ وہ پڑھتے جاتے اور قبلہ عالم اس کا مفہوم بیان فرماتے جاتے، درمیان میں نواب صاحب اعتراض کرتے اور حضرت اس کا جواب بھی دیتے۔ صبح تقریبا ایک گھنٹہ دن چڑھے یہ جلسہ شروع ہوا اور بارہ بجے جب کہ گرمیوں کا موسم تھا تمت کی‘‘ت’’ پر نواب صاحب پہنچے درمیان میں حضرت کی کسی سے نہ گفتگو ہوئی اور نہ ہی دوسرے سے مخاطب ہوئے، جس وقت رسالہ کو سبقاً سبقاً اپنے استاذ حضرت مولانا عبد الحق صاحب سے پڑھا مگر واللہ حضور نے بعینہ وہی تقریر فرمائی جو مولانا صاحب کیا کرتے تھے۔ نہ ایک لفظ کم نہ ایک زیادہ ہوا حضرت نے ہنس کر فرمایا کہ نواب صاحب آج آپ ایک ایسے ملے جو اتنی دیر میرے سامنے قائم رہ سکے’’۔( مقالات جامعہ صمدیہ ص:۱۹/۲۰بحوالہ ملفوظ شریف، ص:۷۰)
حضور حافظ بخاری علیہ الرحمہ علمی اعتبار سے کتنے پختے، فقہی اعتبار سے کتنے گہرے اور فکری اعتبار سے کتنے وسیع النظر تھے جس کا زمانہ معترف ہے،اگر یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ :‘‘ فقہ کا سارا باب ہر وقت آپ کے پیش نظر ہوتا’’۔ اللہ رب العزت نے علم حضوری سے ایسے نوازا تھا کہ جونہی سوال کیا جاتا، فورا جواب عنایت فرماتے، گویا کہ ایسا منظر نظر کے سامنے ہوتاتھا:
ایک کنکر پھینک کر دیکھو ذرا تالاب میں
کس قدر موجیں اٹھیں گی سینہ بیتاب میں
حضور حافظ بخاری علیہ الرحمہ بے شمار علوم و فنون (علم حدیث، اصول حدیث، علم فقہ، اصول فقہ، صرف ، نحو، عربی ادب ، فارسی ادب ۔۔۔وغیرہ) پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ حافظ کلام باری ، حافظ بخاری، حصن حصین اور دلائل الخیرات شریف کے بھی حافظ تھے۔ آپ علیہ الرحمہ ایسے زبردست حافظ قرآن تھے کہ تراویح میں محض دو تین گھنٹے میں قرآن پاک ختم کر لیا کرتے تھے۔ آپ نے ہندوستان کی متعدد مساجد میں دو تین گھنٹے میں ختم قرآن کیا اور متعدد مساجد میں شبینے پڑھے۔قابل فخر بات یہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کو مسجد نبوی شریف میں بھی حفاظ عرب کی موجودگی میں ختم قرآن کا شرف حاصل ہوا۔ استاذی الکریم مصلح و قوم و ملت مناظر اہل سنت ، استاذ العلما حضرت علامہ الحاج مفتی محمد انفاس الحسن چشتی صاحب قبلہ دام ظلہ العالی، شیخ الحدیث و صدر المدرسین جامعہ صمدیہ( پھپھوند شریف ،اوریا ، یوپی) رقم طراز ہیں:
‘‘ حضور حافظ بخاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تراویح کی نماز میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے اور ترویحوں میں بخاری شریف پڑھا کرتے تھے۔ جس روز جتنے پارے قرآن پاک کے تراویح میں ہوتے ترویحوں میں اتنے ہی پارے بخاری شریف کے بھی ہوجاتے تھے۔ دن میں کلام مجید کے دور کے ساتھ بخاری شریف کا بھی دور فرمایا کرتے تھے’’۔ (حیات اکبر المشایخ، ص:۴۱)
حضور حافظ بخاری علیہ الرحمہ نے حفظ بخاری کے دوران بڑی محنت و مشقت کی۔ آپ علیہ الرحمہ خود فرماتے ہیں:
‘‘بخاری شریف یاد کرنے میں میں اپنے بالوں کو چھت سے باندھ دیا کرتا تھا تاکہ نیند نہ آئے، جب نیند کا جھونکا آجاتا تھا تو بالوں کے کھنچنے کی تکلیف سے نیند ختم ہوجاتی تھی۔ سینکڑوں راتیں اسی حالت میں گزاریں’’۔ (حیات اکبر المشایخ، ص:۴۱)
اس زندگی کے حسن کی تابندی نہ پوچھ
جو حادثوں کی دھوپ میں تپ کر نکھر گئی
حضور حافظ بخاری علیہ الرحمہ نے مختلف موضوعات پر مندرجہ ذیل کتابیں تصنیف فرمائیں۔
(۱)حق الیقین فی مبحث مولد اعلی النبیین (۲)افادات صمدیہ (۳)جمعہ تلبیسات (۴)جواب اقوال (۵) نصر السنیین علی عداۃ سید المرسلین (۶) تکملہ (۷) نصر السنیین علی احزاب المبتدعین (۸) طوارق الصمدیہ (۹)ارغام الشیاطین فی تردید متعۃ الشیعیین۔ (۱۰) عین الیقین (۱۱) تبعید الشیاطین بامداد جنون الحق المبین (۱۲)نمونہ وہابیوں کی کارسازیوں اور شعبدہ بازیوں کا(۱۳)شعلہ غضب۔اھ
خلاصہ کلام یہ کہ حضور حافظ بخاری علیہ الرحمہ اسلام کے سچے علم بردار اور کتاب و سنت کے ناشر و داعی تھے۔ اہل اسلام سے محبت کرنا اور دشمنان دین سے نفرت آپ کے خون میں شامل تھا۔ اور کیوں نہ ہو کہ آپ اپنے نانا جان سید کونین ﷺ کے سچے نائب اور صحیح وارث تھے۔ آپ علیہ الرحمہ پوری زندگی زبان وقلم کے ذریعے اسلام و سنیت کی تبلیغ کرتے رہے ۔ اپنی دینی و ملی خدمات ہی کی وجہ سے آج بھی لوگوکے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ یقینا آپ کی زندگی کا یہ پہلو طالبان علوم نبویہ کے لیے درس عبرت ہے۔
ہزاروں رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری اللہ رب العزت نبی کریم ﷺ کے صدقے ہمیں بھی اپنے اسلاف کے کردار و عمل کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور فیضان حضور حافظ بخاری سے مالا مال فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ