تحریر: ساجد محمود شیخ، میراروڈ ضلع تھانے
مکرمی! حکومت کے بدنام زمانہ تین سیاہ قانون کے خلاف کسان دو ماہ سے زائد عرصہ سے مسلسل مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان سیاہ قانون کی بدولت کسانوں کی پیداوار پر چنندہ کارپوریٹ گھرانوں کی اجارہ داری قائم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور کسانوں کو اندیشہ ہے کہ وہ اپنے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ کسانوں نے دہلی کی سرحد پر ڈیرہ ڈال دیا ہے ۔ ابتدا میں حکومت نے سوچا تھا کہ کسان چند روز احتجاج کرنے کے بعد تھک ہار کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے ۔مگر کسانوں نے ناقابل یقین قربانیاں دیں اور ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں۔ دہلی کے انتہائی سرد موسم کی مار برداشت کی۔ جب حکومت نے دیکھا کہ کسان ٹس سے مس نہیں ہو رہےہیں تو حکومت نے کسان کے خلاف چالیں چلنا شروع کر دیا۔ وقت برباد کرنے کے لئے بات چیت کا ڈھونگ رچایا۔ کئی راؤنڈ کی بات چیت بے نتیجہ رہی ۔ حکومت نے کسان قائدین کے حوصلوں کو توڑنے کے لئے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا نوٹس بھجوادیا۔ چھبیس جنوری کو ٹریکٹر ریلی کو بدنام کرنے کے لئے بی جے پی کے ایک حمایتی کے ذریعے لال قلعہ پر کسانوں کا جھنڈا لہرایا۔ اب یوپی کے وزیراعلی نے ہر ممکن طریقے سے کسانوں کے مظاہرہ گاہ کو اجاڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی افراد کے نام پر بی جے پی نے چند غنڈوں سے پولیس کی موجودگی میں کسانوں پر پتھراؤ کروایا گیا۔ لیکن کسانوں نے ہمّت نہیں ہاری اور زائد تعداد میں مظاہرین پہنچ گئے۔ حکومت کی کسانوں کے خلاف سازشوں کے سیلِ بلا کے سامنے کسان ہمّت و حوصلے کا کوہِ گراں بنے ہوئے ہیں ۔ حکومت کے اربابِ اختیار کو چاہئے کہ اپنی ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسانوں کی جائز مانگوں کو تسلیم کرے اور متنازعہ زرعی قوانین کو فوراً منسوخ کرے ۔ کسانوں کے عزم واستقلال کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے یہ شعر پیش کرتا ہوں۔
ادھر آ ستمگر ہُنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
ملے نہ ملے ہم کو منزل اگرچہ
چلو آؤ شوقِ سفر آزمائیں