سیاست و حالات حاضرہ

کیا مرکزی حکومت خطرے میں ہے؟

  • راہل گاندھی کی ووٹ چوری پریس کانفرنس کے بعد حکمراں جماعت کی بے چینی میں اضافہ

راہل گاندھی کی حالیہ پریس کانفرنس، جس میں انہوں نے انتخابات میں "ووٹ چوری” کے الزامات عائد کیے، نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ کوئی عام پریس کانفرنس نہیں تھی بلکہ ایک ایسا سیاسی "الزام نامہ” تھا جس نے حکومت کے استحکام پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

اب تک نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکمراں جماعت کے کچھ ارکانِ پارلیمان کے اندر بھی یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی فتوحات کا سہرا نہ تو مکمل طور پر نریندر مودی کی مقبولیت کو دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سرکاری اسکیموں کی عوامی پذیرائی کو۔ ایک بڑا سوال یہ ابھر کر سامنے آیا ہے — کیا الیکشن کمیشن کا کردار حکمراں جماعت کے لیے حد سے زیادہ "معاون” رہا ہے؟
اگر یہ یقین حکمراں جماعت کے اندر پختہ ہونے لگے کہ مودی حکومت کو جتنی نشستیں ملی ہیں وہ مودی لہر سے نہیں بلکہ انتخابی مینجمنٹ کا نتیجہ ہیں، تو اس کا براہِ راست اثر نائب صدر کے انتخاب جیسے حساس موقع پر نظر آ سکتا ہے۔ اپوزیشن کا اعتماد بڑھ گیا ہے کہ وہ اب انتخابی اعداد و شمار کی باریکیوں کو سمجھ چکا ہے اور مستقبل میں "مینجمنٹ” کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔

ایسے میں حکمراں جماعت کے اندر کراس ووٹنگ کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

خارجہ پالیسی میں الجھن

مودی حکومت کی خارجہ پالیسی بھی آج دو راہے پر کھڑی ہے۔ امریکہ کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ قربت دکھانے کی پالیسی اب کمزور پڑ رہی ہے۔ اسرائیل خود بھی داخلی بحران میں گھرا ہوا ہے اور اب بھارت کے لیے لابنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بھارت کو روس سے سستا تیل لینے پر کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم مودی نہ مغربی بلاک کا اعتماد حاصل کر پا رہے ہیں اور نہ ہی روایتی حلیفوں کی حمایت۔

پارلیمان میں غیر آرام دہ حکومت

پارلیمان کے اندر "آپریشن سندور” پر ہونے والی بحث میں حکومت کی پوزیشن مزید کمزور دکھائی دی۔ راہل گاندھی کا یہ براہِ راست چیلنج — "اگر پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ٹرمپ کے کہنے پر نہیں ہوئی تھی، تو وزیر اعظم پارلیمان میں کھڑے ہو کر ٹرمپ کو جھوٹا کہیں” — حکومت کے لیے پریشان کن تھا۔

وزیر اعظم مودی نے اپنے پورے خطاب میں ٹرمپ کا نام تک نہیں لیا، جس سے اپوزیشن کو مزید حوصلہ ملا۔

ووٹ چوری: ایک سیاسی ایٹم بم

راہل گاندھی کا "ووٹ چوری” والا الزام حکمراں جماعت کے لیے ایک ایٹم بم کی مانند ثابت ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن اب اس مسئلے کو لے کر سڑکوں پر اترنے کی تیاری کر رہا ہے، اور حکمراں جماعت اپنے ارکانِ پارلیمان کو متحد رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

این ڈی اے کے اتحادی، جیسے نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو، کیا آنکھیں بند کر کے ان الزامات کو نظر انداز کریں گے؟ کیا وہ نہیں چاہیں گے کہ ملک میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور جمہوریت کی حرمت برقرار رہے؟

ایمرجنسی کا خدشہ؟

اب تک کے حالات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت دفاعی پوزیشن پر آ چکی ہے۔ اقتدار کو بچانے کے لیے مودی حکومت ایمرجنسی جیسے قدم کی طرف بھی بڑھ سکتی ہے۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا صدر دروپدی مرمو سے الگ الگ ملاقات کرنا ان خدشات کو تقویت دیتا ہے۔

بھارت کی عوام چاہے جتنی بھی مذہبی بحثوں میں الجھی ہو، لیکن وہ اپنے جمہوریت کو لوٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ ملک کو چاہیے شفافیت، غیر جانبداری اور آئینی اقدار کا تحفظ — یہی جمہوریت کی اصل بنیاد ہے۔

تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے