سیاست و حالات حاضرہ

امریکہ میں جھوٹ،نفرت اورشدت پسندی کا بھیانک انجام!

تحریر: سرفرازاحمد قاسمی
جنرل سکریٹری: کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک، حیدرآباد

            گذشتہ 6جنوری کوامریکہ میں جوکچھ ہوا اسکوپوری دنیا نے دیکھا،کس طرح وہاں غنڈہ گردی کی کوشش کی گئی،جمہوریت کے قدیم اور سب سےبڑےعلمبردار ملک میں جسطرح مسلح دراندازی کی سعی کی گئی یہ کئی اعتبارسے افسوسناک بھی ہے اورعبرت ناک بھی،کیپیٹل ہل جوامریکی پارلیمنٹ ہے اس پرکس طرح چڑھائی کی گئی اسکی توقع خود امریکہ اور امریکیوں کو بھی نہیں رہی ہوگی،لیکن یہ سانحہ پیش آکر رہا،آج کل یہی بحث پوری دنیامیں چل رہی ہے،سوشل میڈیا اس سےبھرا پڑاہے،ہرجگہ اسکے چرچے ہورہے ہیں،لیکن یہ سب ہوا کیوں؟ اسکی وجوہات کیاہیں؟اس پرغورکرنے کی ضرورت ہے،ایک ایساواقعہ جس نے پوری دنیا میں امریکہ کورسوا کیا،امریکیوں کی شبیہ خراب کی یہ تشویشناک بھی ہے اورقابل غوربھی،آخر امریکہ کو یہ دن کیوں دیکھنا پڑا؟سوپر پاور کہلانے اور امن ومحبت کا سب سے بڑا علمبردار کہلانے والا یہ ملک آج دنیا بھرمیں موضوع بحث بناہواہے،ہوا یہ کہ 6جنوری کو امریکی ایوان کا اجلاس جاری تھا جس میں انتخابی نتائج کی رپورٹ پیش کی جارہی تھی،اسی اجلاس میں نئےامیدوار کےجیت کی توثیق کی جانی تھی،اسی دوران ٹرمپ کےحامی شدت پسندوں نے الیکشن کےنتائج تبدیل کروانے اورجوبائیڈن کی جگہ ٹرمپ کوہی برقرار رکھنے کی ضد میں کیپیٹل ہل کی عمارت پردھاوا بول دیا،جسکے نتیجےمیں پانچ لوگوں کواپنی جان گنوانی پڑی،کیپیٹل ہل کی بلڈنگ کوفوری طورپرلاک ڈاؤن کردیاگیا،اورکرفیو کااعلان بھی ہوگیا،امریکی میڈیاکے مطابق ٹرمپ کے حامیوں کی بڑی تعداد رکاوٹیں اورسیکورٹی حصار کوتوڑتے ہوئے واشنگٹن میں واقع کیپیٹل ہل کی عمارت میں گھس پڑی تھی،جسےبہرحال ناکام بنادیاگیا،اورصورتحال کوقابو میں کرلیاگیا،پولس کی جانب سےمظاہرین کومنتشر کرنےکےلئے،آنسوگیاس کااستعمال بھی کیاگیا،جبکہ مظاہرین کی جانب سے بھی پولس پرخارش والا اسپرے کیاگیا،جھڑپوں کےدوران کئی پولس جوان بھی زخمی ہوگئے،جنھیں ہاسپٹل منتقل کیاگیا،خبروں کےمطابق شروع میں امریکی محکمہ دفاع نے فوج کوطلب کرنے کا انتظامیہ کامطالبہ مسترد کردیاتھا”اس واقعے کےبعد نومنتخب امریکی صدرجوبائیڈن نے برسرموقع قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کیپیٹل ہل کی عمارت کےباہر پرتشدد مظاہرہ امریکی جمہوریت کاعکاس نہیں ہے،آج کے واقعے سے بہت دکھ ہوا اورامریکی جمہوریت کو نقصان پہونچا،امریکی تاریخ کاسیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی،جسکےبعد پولس نے کیپیٹل ہل کی عمارت کو مظاہرین سے خالی کرواکر اسکاکنٹرول سنھبال لیا،واشنگٹن کی سڑکوں پرسناٹاچھاگیا،اورمظاہرین منتشرکردئےگئے،رپورٹ کے مطابق ہزاروں مظاہرین جوہتھیاروں سےلیس تھے انکی گرفتاری بھی ہوئی اورہتھیاروں کی ضبطی بھی ہوئی،امریکہ کی جمہوری تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے،جسکی وجہ سے ساری دنیامیں ہیجان کی کیفیت پیداہوگئی،افراتفری اورپرتشد بغاوت کی وجہ سے پورےملک میں کہرام مچ گیا،اس واقعہ نے امریکی تاریخ کے 300سال پرانے جمہوری نظام کو زخم آلود کردیا،جس وقت ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی پارلیمنٹ کو یرغمال بناکر پارلیمنٹ پرہلہ بولا حملہ آوروں کے تیور اتنے جارحانہ تھےکہ اگرسیکورٹی عملہ انھیں روکنے کےلئے انکے سامنے جاتاتو انھیں بھی انکے حملوں کاشکار ہوناپڑتا،سوشل میڈیا پر گشت کررہی وہاں کی تصویریں اورویڈیوز سے معلوم ہوتاہے کہ وہاں کی صورتحال انتہائی سنگین تھی،آخراسطرح کے سنگین حالات کیوں پیش آئے؟کیااس پرغوروفکر کی ضرورت نہیں ہے ؟          یہ حقیقت ہے کہ دولت اورطاقت کا نشہ انسان کو اندھاکردیتی ہے،ٹرمپ کے ساتھ بھی یہی ہوا،انھوں نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد دنیابھرکے حکمران طبقے سے دشمنی مول لی،اسکی یہ خواہش تھی کہ جس مسند پروہ ایک بار فائز ہوگئے اسے کبھی نہیں چھوڑناہے،ہمیشہ اس پربراجمان رہناہے،صدرکا عہدہ انکے پاس ہمیشہ رہے اسے کوئی چھین نہ سکے،اسی خواہش نے ٹرمپ کو ملک میں انارکی پھیلانے کےلئے اکسایا،اورپھرانکے شدت پسند حامی پارلیمنٹ پرحملہ کےلئے نکل پڑے،اپنی اس خواہش کی تکمیل کےلئے انھوں نے چارسال میں تمام حربے استعمال کئے،کثرت سےجھوٹ بولا،نفرت کابازارگرم کیا،شدت پسندی کوفروغ دیااوراسے پروان چڑھایا،اپنے آئینی عہدوں کاغلط استعمال بھی کیا،ملک کےدستوری ادراوں کو کھلونا بھی بنایا،پارلیمنٹ کی عمارت کےاندر جس وقت قانون سازیہ کے دونوں ایوان کانگریس اورسینٹ کے ارکان کا مشترکہ اجلاس چل رہاتھا،اس اجلاس سے عین قبل ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے تقریباً ایک گھنٹہ تک خطاب کیا،اوراپنی جیت کےحق میں فرضی دلائل پیش کئے،آئینی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی کی اورپھر ارکانِ پارلیمان پرزور ڈالنے کےلئے اپنے حواریوں کاجتھہ پارلیمنٹ کی جانب روانہ کردیا،واشنگٹن ڈی سی میں اپنے حامیوں کو بالواسطہ حملہ کےلئے اکساتے ہوئے انھوں نے کہاکہ دھاندلی ہونے پرآپکو اپنی شکست قبول نہیں کرنی چاہئے،بس پھر کیاتھا کہ ٹرمپ کے بھکتوں نے آمنا وصدقنا کہتے ہوئے کیپیٹل ہل پرقبضہ کےلئے نکل پڑے،امریکی وہ قوم ہے جسے اپنے آئین اورجمہوری روایتوں پر اس قدر گھمنڈ اور غرور ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسری اورکسی قوم کو عالم انسانیت کا نجات دہندہ نہیں سمجھتی،انکا زعم اسقدر بڑھا ہواہے کہ وہ اقوامِ عالم کو مساوات،برداشت ،تحمل،محبت اورایثاروقربانی کے علاوہ حقوق انسانی کی پاسداری کا درس دیتی ہے،لیکن 6جنوری کو جوکچھ ہوااورجسطرح کی  غنڈہ گردی کی گئی، اس نے اس قوم کی حقیقت کوآشکارا کردیا،لوگوں کاخیال یہ بھی ہے کہ امریکہ میں ایک بہت بڑی تعداد تعلیم یافتہ ہے،لیکن یہ کیاہوا کہ ایک ضدی،متشدد،جھوٹ اور نفرت کے پجاری کو ملک کاباگ ڈور سونپ دیاگیاجس نے چارسال تک امریکی قوم کوذلیل ورسوا کرتارہا اور پھر وہ اپنی خواہشات کی تسکین کےلئے حدسے تجاوز کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ،ایک جاہ پرست اور متعصب  سیاستداں کے بہکاوے میں ایک طبقے نے ایسا قدم اٹھایا ہے جوامریکہ کے قومی وملکی وقار کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں امریکہ کی بے توقیری کا سبب بن گیا،لالچی اور اقتدار کی ہوس میں ہوش کھودینے والے شخص نے جمہوریت کو ختم کرکے آمریت میں بدلنےکی ساری کوششیں تو ناکام ہوچکی ہیں،لیکن خطرہ اب بھی برقرار ہے،وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ رخصت ہوچکے ہیں،یہ کہاجاسکتا ہےکہ ٹرمپ نے اپنے دوراقتدار میں کوئی بھی تعمیری کام نہیں کیاسوائےتخریب کے،یہ تواچھاہوا کہ چارسال میں ہی امریکیوں نےخطرات کوبھانپ لیا اوردوسری بار دولت اقتدارکے نشے میں بدمست شخص کوموقع نہ دیااگردوسری باربھی انھیں موقع فراہم کیاجاتاتو نہ جانے یہ مغرور شخص کہاں جاکررکتااورآگے کیاکارنامہ انجام دیتا،        اب نئےصدرکی حلف برداری ہوچکی ہے اورملک کے 46ویں صدرکی حیثیت سے جوبائیڈن وائٹ ہاؤس منتقل ہوچکےہیں ایسے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کو درس جمہوریت دینے والی امریکی قوم ٹرمپ کےخلاف کیا رویہ اختیار کرتی ہے،ہمارے ملک بھارت میں اسوقت جوحالات ہیں،یہی ماحول ٹرمپ نے امریکہ میں بنایا تھا،لیکن اسکاانجام کتنا بھیانک ثابت ہوا یہی بات تشویشناک ہے،        امریکہ کا یہ واقعہ بھارت سمیت دنیا بھر کےانتہاء پسندی کو ہوادینے،جھوٹ اورنفرت پھیلانے والے حکمرانوں کےلئے یہ عبرت ناک سبق بھی ہے،اپنے چارسالہ دوراقتدار میں ٹرمپ نے جسطرح اپنی موافق ذہنیت رکھنے والے بھکتوں میں نفرت کا ایسالاوا بھرا کہ آخرکار یہ آتش فشاں بن کرابل پڑا،یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرکسی کو اپنی سیاہ کاریوں کاانجام ایک نہ ایک دن بھگتنا ہی پڑتاہے کیپیٹل ہل پرجوکچھ ہوا یہ اسی کا نتیجہ ہے،اپنے بھارت میں گذشتہ 7سالوں سے جوکچھ ہورہاہے،اور جسطرح کا ماحول بنایاجارہاہے اگراس پر قابو نہ کیاگیا تو ہمیں بھی اسطرح کےحادثے کےلئے تیار رہنا ہوگا،کیونکہ آج جوکچھ بویا جارہاہے کل وہی کاٹاجائےگا،ملک میں بےروزگاری بڑھتی جارہی ہے،معیشت بالکل تباہ کردی گئی،نوٹ بندی اورجی ایس ٹی کےعلاوہ دیگروہ فیصلےجس سےبھارت کی معیشت کوزبردست نقصان پہونچا ہے،        لوگوں  کومذہبی افیون پلایاجارہاہے،جھوٹ پر جھوٹ بولکر بھارتی قوم کوگمراہ کرنے کاعمل جاری ہے،نفرت اور شدت پسندی بھی اپنے عروج پر ہے،جمہوریت کےبارے میں سوال کرنےپروزیر اعظم جھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں،ایسے میں کیا آپ جانتے ہیں کہ اسکانتیجہ کیاہوگا؟اگر خدانخواستہ آنےوالے دنوں میں امریکہ کاشرمناک واقعہ ہمارے ملک میں بھی دہرایا جاتاہے تو پھرکیاہوگا؟امریکہ میں تو میڈیا آزاد تھا اس نے لوگوں کی ترجمانی کی،عدلیہ آزاد تھا اور سب سے بڑھکر یہ کہ وہاں کانظام منظم ہونے ہونے کی وجہ سے شدت پسندی اوردہشت گردی کی کوشش ناکام بنادی گئی،کیااپنے بھارت میں ایساممکن ہے؟ جہاں نہ میڈیا آزاد ہے اور نہ دوسرے ادارے،پھر کیا ہوگا اپنے ملک میں یہ سوچئےگا ضرور،کیونکہ بھارت میں مسلسل یہی ہورہاہے جو امریکہ میں گذشتہ چارسالوں میں ہوا،دولت اوراقتدار کاپجاری امریکہ میں بھی تھا اور بھارت میں بھی ہے،امریکہ کےپجاری کی شام توہوچکی ہےاوروہ  وائٹ ہاؤس سےرخصت بھی کردئیے گئے، لیکن ہمارے والے کی شام کب ہوگی یہ دیکھنا باقی ہے،لیکن ہوگی ضرور،شاید راحت اندوری مرحوم نے ایسے ہی موقع کےلئے کہاتھاکہ جوآج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہونگےکرایے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
(مضمون نگار کل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کےجنرل سکریٹری ہیں)sarfarazahmedqasmi@gmail.comAttachments area

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے