سیاست و حالات حاضرہ

لو جہاد کے بہانے مسلمانوں پر نشانہ

تحریر: ظفر کبیر نگری

چھبرا، دھرم سنگھوا بازار،سنت کبیر نگر،یوپی

اترپردیش میں نام نہاد لو جہاد قانون نافذ ہوگیا ہے، جس کا نام "یوپی انسداد غیر قانونی تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 ہے”، حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد خواتین کی حفاظت کرنا ہے، تاہم دیکھا جائے تو آرڈیننس کے نفاذ کے بعد جتنے معاملے سامنے آئے ہیں ان سب میں پولیس نے دوہرا رویہ اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس نے منمانے طریقہ سے اس قانون کا استعمال کیا ہے، ایک ہی طرح کے معاملوں میں کسی لڑکے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے اور کسی معاملے میں جوڑے کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور پولیس اپنی مرضی کے مطابق نئے آرڈیننس کی تشریح کرکے متعصبانہ ذہنیت سے ایک طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت اس سے قبل بی طرح کا قانون لانے کی تیاری کرچکی ہے، وہیں ہریانہ ، کرناٹک اور بی جے پی کے زیر اقتدار دیگر کئی ریاستوں میں اس طرح کے قانون کو لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، اس قانون کے تحت مذہب کو چھپا کر یا کسی کو دھوکہ دے کر شادی کرنے پر دس سال قید کی سزا ہوگی،  اسی طرح لالچ دے کر، جھوٹ بول کر، زبردستی مذہب تبدیل کرنے یا شادی کے لئے مذہب تبدیل کرنے کو جرم سمجھا جائے گا ، نابالغ، ایس سی، ایس ٹی، کے خواتین کا مذہب تبدیل کرنے پر سخت سزا ہوگی، اجتماعی تبدیلی مذہب کرنے پر سماجی تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوگی،  بین المذاہب شادی کرنے والوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے، لڑکی کا مذہب تبدیل کرکے کی گئی شادی کو شادی نہیں سمجھا جائے گا، قانون کے مطابق لالچ دے کر یا جبری طور پر مذہب تبدیل کرنا سخت اور ناقابل ضمانت جرم ہوگا، اس قانون کو توڑنے پر کم سے کم پندرہ ہزار روپے جرمانہ اور ایک سے پانچ سال تک کی سزا ہوگی، یہی جرم ایک نابالغ یا ایس سی، ایس ٹی لڑکی کے ساتھ کرنے پر پچیس ہزار روپے جرمانہ اور تین سے دس سال تک قید کی سزا دی جائے گی،  غیر قانونی اجتماعی تبدیلی مذہب کے نتیجے میں کم از کم پچاس ہزار روپے جرمانہ اور تین سے دس سال تک کی سزا ہوگی،  تبدیلی مذہب کے لئے ضلع مجسٹریٹ کو دو ماہ قبل مقررہ فارم بھر کے دینا ہوگا،  اس کی خلاف ورزی پر چھ ماہ سے تین سال تک کی سزا ہوگی اور کم سے کم دس ہزار روپے جرمانہ ہوگا، اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے آرڈیننس کی ضرورت کیا تھی جبکہ مذہب رنگ نسل وغیرہ کی بنیاد پر لوگوں میں نفرت پھیلانے، عدالتی کارروائی کے مراحل میں جھوٹی گواہی دینے یا غلط ثبوت پیش کرنے، کسی عورت کی مرضی کے خلاف اس سے شادی کرنے، بدکاری یا اغوا یا غیر مجاز جماع کے لئے کسی عورت کو پریشان کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے اپنی پہچان کو چھپانے جیسے جرائم کے لیے آئی پی سی کی دفعات 153اے، 193، 366، 416، 493 اور 506 کے تحت پہلے سے ہی سخت سزاؤں اور جرمانوں کا التزام ہے، بی جے پی اور سنگھی ذہنیت کا یہ کہنا ہے کہ مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان سے شادی کر لیتے ہیں اور انھیں جبری مذہب تبدیل کراتے ہیں، اور اسی کو انھوں نے لو جہاد کا نام دیا ہے، یعنی مسلمان نوجوان ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یعنی جہاد سمجھ کر یہ کام کرتے ہیں، ان کے مطابق اس طرح کی دھوکہ دہی، مذہب تبدیل کروانے، نکاح اور قتل کی ترغیب ان مسلم نوجوانوں کو ان تنظیموں سے ملتی ہے جو بھارت کو اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں، تاہم  ایسے تمام الزامات اور دعوے سفید جھوٹ اور مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈا کے سوا کچھ نہیں،   اس کے برعکس اگر لڑکی مسلم ہو اور لڑکا ہندو ہو تو اس میں کسی قسم کی سازش نہیں ہے، چنانچہ گذشتہ برسوں میں جب سے بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہوئی ہے، لو جہاد کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے اور اس معاملے بہت سے جوڑوں کو اذیت ناک مراحل سے گزرنا بھی پڑا ہے۔
در اصل ملک کی مختلف ہندو تنظیمیں جیسے آر ایس ایس، ہندو سینا، بجرنگ دل وغیرہ  کا قیام جن بنیادوں پر عمل میں آیا تھا ان میں اسلاموفوبیا بھی ایک اہم عنصر شامل رہا ہے، ان جماعتوں کے جو کثیرالجہتی مقاصد متعین کیے گئے تھے آج بھی انہیں مقاصد کے حصول کی کوششیں مرکزی اور کچھ صوبوں میں بر سر اقتدار بی جے پی حکومتیں کر رہی ہیں ، ان کے مقاصد میں ملک کی عوام خصوصاً نوجوانوں کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کرنا، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو فوجی تربیت دینا اور مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنا شامل ہے، آر ایس ایس وہ تنظیم جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی گہرا تعلق ہے اور جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے، اور ملک میں آباد جو لوگ ہندو نہیں ہیں انہیں ہندو بن جانا چاہیے،  بی جے پی کے لیڈر بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر مسلمان ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بن کر رہنا ہوگا، ورنہ وہ ہندوستان سے چلے جائیں، اس مقصد کے لیے وہ مختلف حکمت عملی پر کام کررہے ہیں، ایک حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترغیب اور تربیت کے ذریعے ہندو بنایا جائے، اسے گھر واپسی آندولن سے موسوم کیا جائے، دوسرے یہ کہ اس سلسلے میں تبدیلی مذہب کو سخت بنانے کے ساتھ ساتھ اب بی جے پی کی قیادت والے صوبے یکے بعد دیگر ے بین المذاہب شادیوں کو روکنے کےلیےقانون سازی کر رہے ہیں، اتر پردیش کی یوگی حکومت اس طرح کا ایک آرڈیننس منظور کر چکی ہے ، حالانکہ یہ قانون ہائی کورٹ  کے فیصلوں اور آئین کی دفعہ کے خلاف ہے، اگر سرکار کی منشا جبراً تبدیلی مذہب کو روکنے کی ہی تھی تو اس کا سب سے آسان طریقہ تھا کہ جس نے مذہب تبدیل  کیا ہے اس سے جوڈیشیل مجسٹریٹ کے س امنے بیان دلوا دیا جاتا، عدالت کے سامنے دیے بیان سے زیادہ اہمیت اور کس چیز کی ہوتی، لیکن یہاں تو پیچیدہ قانون بنا کر لوگوں کو تنگ کرنا ہے، ابھی حال میں ہی الہ آباد اور کرناٹک ہائی کورٹ نے قریب قریب ایک جیسے فیصلوں میں کہا ہے کہ اپنی پسند کے شخص، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا کیوں نہ ہو، کے ساتھ رہنے کا اختیار، زندگی اور آزادی کے حق  میں مضمر ہے اور اس میں کسی طرح  سےدخل اندازی  نہیں کی جا سکتی، دہلی ہائی کورٹ نے تو پولیس کو ہدایت بھی دی کہ لڑکی کے والدین کو کہا جائے کہ وہ اسے دھمکانے سے باز آئیں، اسی طرح آئین کی دفعہ 25 ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتی ہے، یہ دفعہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ کسی اقلیتی طبقہ کا ہر رکن اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا حق رکھتا ہے، ریاست صرف ان مذہبی امور سے باز رکھ سکتی ہے جن سے امن عامہ کو خطرہ ہو، گویا ایسے قوانین کا اصل مقصد مسلمانوں کی سماجی بے دخلی ہے، سیاسی طور پر بھارت کے مسلمان پہلے ہی حاشیہ پر دھکیلے جا چکے ہیں، اس طرح کے قوانین کے آ نے سے ان کے سماجی بائیکاٹ کی راہ آسان ہو جائے گی یا کم از کم ملک کے سوشل ایکوسسٹم میں ان کی کوئی بامعنی شمولیت ہی نہیں رہ جائے گی، اور اس طرح کے قوانین ہندو راشٹر کو ایک سماجی حقیقت بنا دینے میں ان کے معاون ہوں گے، کیوں کہ اس طرح کی زہرافشانی سے وہ لوجہاد کا ہوا کھڑا کرکے زہر کی کھیتی کے لئے زمین تیار تو کر ہی سکتے ہیں، جس کی تائید تبدیلی مذہب قانون کے نفاذ کے بعد پیش آمدہ مندرجہ ذیل واقعات سے بخوبی ہوتی ہے.
مراد آباد میں ایک مسلمان لڑکا اپنے بھائی کے ساتھ ایک غیر مسلم لڑکی سے کورٹ میریج کے لئے عدالت کی طرف لے کر جارہا تھا، پولیس نے دونوں بھائیوں کو نئے قانون کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، حالانکہ لڑکی کہہ رہی ہے کہ  وہ بالغ ہے، اس نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا ہے اور دونوں نے ہندو رواج کے مطابق جولائی میں شادی کرلی تھی، لیکن اس کا پولیس پر کوئی فرق نہیں پڑا،  آرڈیننس کے خوف سے اتر پردیش سے ایک اکیس سالہ لڑکی اور ایک پچیس سالہ لڑکا  دہلی آگئے اور شادی کے لئے رجسٹریشن بھی کرا لیا، لیکن دہلی ہائیکورٹ نے حفاظتی ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ جب تک شادی نہ ہو جائے اس وقت تک  ان کی سیکورٹی یقینی بنائی جائے، پولیس نے نہ صرف مسلم لڑکے کو بلکہ اس کے بھائی، اس کی حاملہ بیوی اور بھابی کو بھی جیل میں ڈال دیا جبکہ اس کے حمل میں پل رہے بچے کو انجیکشن دے کر ختم کر دیا گیا، دراصل یہ حسد مسلمانوں کی نسل سے ہے کہ ان کی نسل ختم کر دی جائے، حالانکہ انیس دن بعد انہیں تبدیلی مذہب کے ثبوت نہ ملنے پر رہا کر دیا گیا، ضلع پیلی بھیت مغربی اتر پردیش کے برکھیڑا گاؤں کے اٹھارہ سالہ سونوعرف ثاقب کو پولیس نے جیل میں بند کردیا ہے، در اصل ثاقب ایک ہفتہ قبل اپنے اسکول میں ساتھ پڑھنے والی ایک دلت لڑکی کو پزّا کھلا نے باہر لے گیا تھا، بعد میں دونوں نے سافٹ ڈرنک لی اور واک پر نکل گئے، پولیس نے اسے لڑکی کو پیار کے جال میں پھنسا کر اغوا کرنے اور تبدیلی مذہب کے الزام میں جیل میں بند کردیا۔لکھنؤ میں رینا کی عادل کےساتھ دونوں خاندانوں کی رضامندی سے دونوں مذاہب کے رسم ورواج کے مطابق ہو رہی شادی کو راشٹریہ یوا واہنی کی شکایت پر پولیس نے رکوا دیا، پولیس نے ان سےنئے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے شادی فوراً روک دینے کیلئے کہا اور دونوں  خاندانوں کو شادی کیلئے پہلے ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینے کی ہدایت دی،   بجنور ضلع میں ایک دلت ہندو لڑکی اور اس کا مسلم دوست اپنے ایک مشترکہ دوست کی سالگرہ پارٹی سے واپس لوٹ رہے تھے، کچھ لوگوں نے انہیں پہلے لاٹھیوں سے پیٹا اور جب یہ پتہ چلا کہ دونوں مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں تو پکڑ کر مقامی تھانے میں لے گئے، جس کے بعد سے مسلم لڑکا ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہے، پولیس کا دعوی ہے کہ لڑکے کو لڑکی کے والد کی اس مبینہ شکایت پر گرفتار کیا گیا ہے، ملزم ان کی بیٹی کو بہلا پھسلا کر بھگا کر لے گیا تھا اور وہ اس کا مذہب تبدیل کرکے شادی کرنا چاہتا تھا، جبکہ لڑکی کے والد نے پولیس کے اس دعوے کی تردید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے خود ایک بیان لکھا اور اس پر دستخط کروا لیے، انہوں نے میری بیٹی کی ویڈیو بنالی اور جھوٹا دعوی کر دیا کہ یہ لو جہاد کا کیس ہے، میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والا تھا اور مجھے بدنام کرنے کے لیے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا. 
اب مندرجہ ذیل واقعات کو بھی دیکھئے، بریلی میں ایک مسلم لڑکی کے باپ نے پولیس سے شکایت کی کہ دو لوگوں کے ساتھ مل کر ایک غیر مسلم لڑکے نے اس کی بائیس سالہ لڑکی کو اغوا کیا اور اس کا مذہب تبدیل کرانے کے بعد اس سے شادی کرلی، پولیس نے  اس شکایت پر توجہ نہیں دیا اور لڑکی سے پہلے تھانے میں  اور پھر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دلواکر واپس اسے اس کے ہندو شوہر کے پاس چھوڑ آئی، بلند شہر کی ایک ہندو عورت ایک مسلمان مرد کے ساتھ چلی گئی، جس کے بعد ایک مسلمان شخص جو ان لوگوں کو جانتا بھی نہیں تھا ہنگامے کے دوران ہلاک ہوگیا، اس طرح حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور پھر ایسے بہت سے حملے ہوئے، علیگڑھ کے تھانہ دہلی گیٹ جھلکاری نگر کے قاسم خان نے مذہب اسلام چھوڑکر مکمل قانونی پریکٹس کے ساتھ ایک مقامی آریہ سماج مندر میں مذہبی ہندو رہنماؤں کی موجودگی میں ہندو مذہب اختیار کرلیا ہے، ایسامانا ایسا جا رہا ہے کہ یہ لو جہاد کے تعلق سے   بنائے گئے قانون کا متوقع اثر ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ اس مع ام لے میں یوپی کے تبدیلی مذہب کا قانون کیوں نہیں لاگو ہوا، جس کے تحت تبدیلی مذہب کے لئے دو ماہ قبل ڈی ایم سے اجازت لینا ہوگی اور اس پر کسی ہندو تنظیم نے انگلی بھی نہیں اٹھائی، کیونکہ ان کے مطابق یہ تبدیلی مذہب نہیں یہ گھر واپسی ہے،   یعنی اگر کوئی ہندو لڑکا مسلم لڑکی کا مذہب تبدیل کرواکے  لڑکی کو ہندو بناکر اس سے شادی کرے گا تو اسے مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی، لیکن اگر کوئی مسلم لڑکا کسی ہندو لڑکی سے اس کا مذہب تبدیل کرائے بغیر بھی شادی کرے گا تو اس مسلمان لڑکے کو جیل بھیج دیا جائے گا، حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق کسی بھی شخص کو اپنی پسند کی شادی کرنے اور مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے، اور اگر کوئی شخص  شادی کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو اسے یہ حق قانونی طور سے حاصل ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریاست کو کسی بھی فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے، عدالت نے یہ بھی کہا کہ پرینکا کھروار اور سلامت کو عدالت ہندو اور مسلم کے طور پر نہیں دیکھتی ہے، بلکہ دو بالغ انسان کے طور پر دیکھتی ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں سلامت انصاری کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا ہے اور پرینکا اور سلامت انصاری کو بطور شوہر اور بیوی  ساتھ رہنے کی اجازت دے دی ہے، واضح رہے کہ سلامت انصاری نے 19؍ اگست 2019 کو پرینکا کھروار نام کی لڑکی سے اسلامی روایت کے مطابق شادی کی تھی، اس شادی کے خلاف پرینکا کے والد نے سلامت انصاری کے خلاف اغوا اور پاکسو ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی، سلامت انصاری نے اس ایف آئی آر کو الہ آباد میں چیلنج کیا تھا، جس الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا، لہذا ریاستی حکومت کو چاہیے کہ اس ظالمانہ اور متعصبانہ قانون کو ختم کرے جس کی تصدیق میں مرکزی حکومت، قومی خواتین کمیشن، عدالتیں اور متعدد پولیس تفتیش آج تک کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی ہیں کہ مسلمان مرد لوجہاد کر رہے ہیں اور نہ ہی حکومت لوجہاد کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار یا اس کی واضح تعریف پیش کرسکی ہے،وہیں مودی حکومت  پارلیمنٹ میں کہہ چکی ہے کہ کسی بھی مرکزی ایجنسی نے لوجہاد کے حوالے سے ایک بھی کیس اب تک درج نہیں کیا ہے اور یہ اصطلاح کسی موجودہ قانون میں موجود ہی نہیں ہے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے