نتیجۂ فکر: نیاز جے راج پوری علیگ، اعظم گڑھ
ہیں کُھلی آنکھیں کِسی کی اور کوئی سو گیا
تین پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا
لالہ زارِ زیست کا اِک پُھول پِھر مُرچھا گیا
شاخِ ذہن و دِل کو چُھو کر ایک جھونکا سا گیا
دے گیا کچھ اور اپنے ساتھ کچھ لیتا گیا
گُزرے سالوں کی طرح یہ سال رُخصت ہو گیا
تین سو پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا
کوئی تو ہنستا ہُوا ہے اور روتا ہے کوئی
ہو گیا سَیراب کوئی اور پیاسا ہے کوئی
پا گیا کوئی سہارا ، بے سہارا ہے کوئی
مِل گیا ساتھی کِسی کو کوئی تنہا ہو گیا
تین سو پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا
کِتنے خوابوں کِتنی تعبیروں کا سنگم دے گیا
کِتنے چہروں کِتنی تصویروں کا البم دے گیا
دے گیا زِیادہ کہیں پر اور کہیں کم دے گیا
سوچنا یہ ہے کہ کیا حاصِل ہُوا کیا کھو گیا
تین سو پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا
نیند سے معمور آنکھوں میں سُلگتے رَت جگے
نام پر مذہب دھرم کے اِس سیاسی جنگ نے
رکھ دِیئے ہیں دِل کے مسجد اور مندر توڑ کے
بیج نفرت کے بہت سے ذہن و دِل میں بو گیا
تین سو پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا
اے خُدا ! میرے خُدا !! تُو ہی بتا ہم کیا کریں
باعثِ رنج و الم اِن یادوں کا ہم کیا کریں
بدلا بدلا ہے تیور اب اپنوں کا ہم کیا کریں
کِس کو ہم اپنا کہیں ، اپنا پرایا ہو گیا
تین سو پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا
جیسا بھی تھا بے مزہ ، دِلچسپ ، اچّھا یو بُرا
سال جو گُزرا ہے اُس کو آ کے جانا تھا گیا
سالِ نَو اہلِ وطن کو راس آئے اے خُدا
ہے عبث اب سوچنا جو ہونا تھا سو ہو گیا
تین سو پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا تھا
سالِ نَو کی اِس خوشی میں گُزرا کر کے دَر گُزر
بُھول کر فِرقہ پرستی بلوے دنگے بُھول کر
آؤ مِل جُل کر چلیں خوشحالیوں کی راہ پر
عزمِ نَو کے بیج ذہن و دِل میں آکر بو گیا
تین سو پینسٹھ دِنوں کا ختم قِصّہ ہو گیا