دیوا پار جس نے لاک ڈاؤن میں مثال قائم کی
از قلم :علی اشہد اعظمی(بلریاگنج)
9004777519
کورونا جیسی وبائی بیماری آنے کے بعد جس طرح سے پوری دنیا میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا تھا اسکول ، کالج، کاروبار اور کام دھندے سب بند پڑ گئے تھے اسی طرح سے روزمرہ کی زندگی میں کام کرنے والے چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے والے ، چھوٹے دھندے اور ٹھیلے والے کی زندگیوں پر کافی اثر پڑا اور لوگوں گھر کے خرچ چلانے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن اسی بیچ اگر کوئی ان پریشان لوگوں کا مسیحا بن کر آتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے نہیں رہ پاتے ، جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی جس کا نام دیوا پار ہے جس کی کل آبادی تقریباً چار سو کے آس پاس ہوگی وہاں کے کچھ نوجوانوں اور گاؤں کے ذمہ داروں نے ایک گروپ کا کی بنیاد ڈالی جس کو “دیوا پار ہلیپ گروپ” کا نام دیا گیا اس گروپ کے اہم رکن جناب انیس احمد ، جناب اطیب شیخ ،جناب افتخار احمد ، جناب آصف شیخ ، جناب ابوزر خان اور جناب محمد عمیر صاحبان نے یہ طے کیا کہ پورے ضلع میں تو نہیں کم از کم ہم اپنے گاؤں و اطراف کے لوگوں کی مدد کر سکیں آپ کو بتاتے چلیں کی پہلے ان لوگوں نے اپنے دوستوں اور خود کے آمدنی سے بچت کرکے “دیوا پار ہیلپ گُروپ” تنظیم کے زیراہتمام روز جمع کرنا شروع کی اور پہلی ہی کوشش میں اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی اور پھر یہ گروپ گاؤں کے اندر دورہ کرکے گھروں کا جائزہ لے کر تحقیق کرکے کہ کون اس کرونا بیماری اور لاک ڈاؤن جیسے حالات میں بھوکا سو رہا ہے کس کے گھر میں راشن نہیں ہے بار یکی سے جائزہ لے کر مدد کرنا شروع کیے اور اس گروپ کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ ذات پات مذہب کو طاق پر رکھ کر بلا تفریق عوام کی مدد کی گئی اور پھر یہ سلسہ چلتا رہا اور اس گروپ کے کام کو دیکھتے ہوئے اور بھی لوگوں کی مدد آنا شروع ہوگئی اور دیکھتے دیکھتے یہ گروپ ایک شہرت کی طرف بڑھ گیا اس کا سب سے بڑا فائد یہ ہوا کہ جب اس گروپ کی مقبولیت بڑھتی گئی تو گاؤں کے وہ لوگ جو برسوں سے گاؤں دور جاکر بس گئے تھے ان کی بھی نظر اس ہلیپ گروپ پر پڑی اور وہ لوگ بھی اپنی ذمہ داری سمجھ کر اپنے گاؤں کو اچھا کام کرتے دیکھ کر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے نیٹ بینکنگ سے امداد کرنا شروع کئے صرف اتنا ہی نہیں اس امداد کو اپنا فریضہ سمجھ کر ہر ماہ جو کچھ بھی بن پڑتا ہے لوگ دیوا پار ہلیپ گروپ میں امداد کرتے آرہے ہیں اور جس کی وجہ سے ہر ماہ پچاس سے ساٹھ ہزار جمع ہوجاتا ہے اور گاؤں کے مستحقین میں راشن اور روپیوں کی شکل میں تقسیم ہورہا ہے اور اس ہیلپ گُروپ کے نوجوان یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان لوگوں نے گاؤں کی ان لڑکیوں کا بھی دھیان رکھا جو شادی کے بعد اپنے سسرال چلی گئیں تھیں دوسرے گاؤں میں جاکر ان کے گھر کا جائزہ لیا اور پھر ان کے گھر بھی امداد پہنچانے کا کام کیا گیا ہے یہ ان باشعور اور باصلاحیت نوجوانوں کی منفرد سوچ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ، اس گروپ کے اہم کارکنان سے بات چیت کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جو زکات صدقات آتے ہیں اس سے گاؤں کے مسلموں اور جو بقیہ امداد آتی ہے اس سے غیر مسلموں کی مدد کی جاتی ہے گاؤں کے مدرسے کے جو مولانا اور استاد ہیں ان کی بھی ہر ماہ مالی مدد کی جاتی ہے گاؤں کے اندر کو بھی سماجی کام کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء اس پر بھی دھیان دیا جارہا ہے اور اس میں پہلا کام گاؤں میں پانی کا بورنگ پمپ لگوایا گیا ، گاؤں کے اندر کسی کو فوری طور پر پیسے کی ضروت پڑگئی تو یہ گروپ آناًفاناً مدد کرنے کو کھڑا رہتا ہے اور اس گروپ کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ یہ ضروت پڑنے پر گاؤں کے وقتی طور پر ضرورت مند گھرانے کو قرض بھی دینے کام کرتا ہے ،
دوستوں اس گروپ سے ہم سب کو ایک سبق لینا چاہیے اور ہر فرد جو یہ مضمون پڑھ رہا ہے اپنے اپنے گاؤں میں پوری ذمہ داری سمجھ کر گاؤں میں پنچایت بیٹھا کر گاؤں کے نوجوان ،بزرگ ، اور ذمہ داران سے صلاح و مشورہ لے کر ایسے ہلیپ گروپ کی تعمیر کرنی چاہیے اس سے آس پاس کے مستحق لوگوں کو ان کا حق بھی ملتا رہے اور ساتھ میں ایک بہتر دینی و رفاہی کام بھی ہوگا، اپنے معاشرے کے نوجوان کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنا قیمتی وقت کو صرف موبائل کھیل کود اورسیرو تفریح میں ضائع نہ کرتے ہوئے ایسے کاموں میں لگائیں جس سے معاشرے کا بھی بھلا ہو اور آپ کی آخرت بھی سنور جائے ،ذرا سوچو ہر گاؤں میں اگر ایسا گروپ بنتا ہے تو انقلاب آسکتا ہے گاؤں کے لوگوں کی مدد گاؤں سے ہی پوری ہوسکتی ہے اگر سب لوگ اپنا فریضہ سمجھ کر صحیح طریقہ سے زکات صدقات اور اپنی آمدنی سے بچت کرکے کچھ پیسہ نکالیں تو افواج میں خوش حالی آسکتی ہے سب کے گھر میں راشن ہوگا سب کے گھر میں روٹی ہوگی تیوہاروں میں لوگ خوش ہوں گے غریب امیر سب کے بچے نئے کپڑے پہنیں گے اس سے اس گروپ کے ذمہ داروں پر تو اللہ کی رحمت نازل ہوگی ہی ساتھ ہی پورے گاؤں پر اللہ کی مدد آئے گی۔
لہذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ زیادہ سے زیادہ صدقات وخیرات کرے چونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے لوگ کافی پریشان ہے لہذا زکوۃ و صدقات کے ذریعے ایسے گروپ بنا کر ضرورت مندوں کی مدد کرے غریبوں کی امداد اور ضرورت مندوں کی حاجت برائی بڑے اجر وثواب کا کام ہے،آپ کے عطیات کے سب سے زیادہ مستحق آپ کے پڑوسی اور گاؤں کے لوگ ہیں لہذا پہلے اپنے گاؤں والوں اور پڑوسیوں کا خیال کریں ان کی مدد کرے اور دل کھول کر غریبوں کی ا مداد کریں اور اہل ثروت اور عام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ موجودہ صورت حالات کو دیکھتے ہوئے سال گزشتہ کی طرح امسال بھی عید کی خریداری کم کریں اور پیسے بچا کر رکھیں اوراس مال سے ضرورت مندوں کا تعاون کریں، خاص طور پر مسلمان دیگر مہینوں کی طرح رمضان میں بھی اپنی محنت کی کمائی سے ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں مگر کرونا وائرس کی وجہ سے اکثر لوگ بے روزگار ہیں ایسے نازک حالات میں صاحب مال مسلمانوں کو اپنے عید اور رمضان کی خریداری چھوڑ کر غریبوں اور ضرورت مندوں کی امداد کر نی چاہئے یاد رکھیں غریبوں محتاجوں کی مدد ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا اسلام کا بنیادی درس ہے اور یہ کام اللہ کو راضی کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔
یہ سال پورے ملک میں لاک ڈاؤن جاری رہا جس کی وجہ کر روزگار بالکل ٹھپ ہے جس کے سبب یومیہ مزدور اور غریب طبقہ کافی پریشان ہے اور ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ خورد ونوش کا ہے لہذا اہل ثروت حضرات سے گزارش ہے کہ اس رمضان المبارک با برکت مہینے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کریں اور غریبوں مزدوروں کی بھر پور مدد کرے اور یہ مدد گاؤں گاؤں کے طرز پر ایسے ہلیپ گروپ بنا کر ممکن ہے جو مستحقین تک براہ راست مدد پہنچا سکی۔