تحریر: سراج احمد قادری مصباحی
مفتی: جامعہ قادریہ کلیم العلوم وسئی مہاراشٹرا
6355155781
چند ہفتہ قبل مہاراشٹرا کا ایک اخباری تراشہ نظر سے گزرا، جس میں ایک عورت کی جانب سے مساجد کھولے جانے پرایک غیر دانشمندانہ اورتعصبانہ بیان تھاکہ مساجد کھولنے کی وجہ سے کرونا کی لہر میں شدید اضافہ ہورہا ہے،اس لیے حکومت مہاراشٹرا کو چاہئے کہ مساجدبند کردیں۔اولا تو اس احمقانہ بیان کو پڑھ کر ہنسی آئی اور تعجب بھی ہوا، کیوں کہ اس کا یہ بیان عصبیت سے لبریز اور زہر اگلنے کے مترادف تھا،اور ایک طرح سے حکومت مہاراشٹرا کے اس دانشمندانہ فیصلے پرتنقید کا نشانہ بھی،جب کہ حکومت مہاراشٹرا نے مساجد کھولنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی عبادت گاہوں کو بھی کھولنے کی پرمیشن دی تھی،وہ بھی مکمل پابندیوں کے ساتھ مثلا ہر ایک نمازی کو ماسک لگا کر آنا ہے،جو بھی شخص مسجد میں داخل ہو اس کا درجہ ٔ حرارت جانچنے کے بعد ہی نماز کی پرمیشن دینا ہے،شوشل ڈیسٹنسنگ کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے ۔وغیرہ وغیرہ۔حکومت مہاراشٹرا کی طرف سے جاری کردہ گائڈ لائنس کے حساب سے اب تک مسجدوں میں نمازیں ہورہی ہیں۔
یہاں خاص بات یہ ہے کہ اس عورت نے کرونا میں اضافہ کا سبب صرف مسجد کو بتایا،جب کہ مندراور چرچ گیٹ ودیگر ذہبی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا تھا،انہیں بھی کرونا میں اضافہ کا ذریعہ بنایا جانا ممکن تھا،انہیں بھی بند کردینے کی گزارش کرناتھی۔ پر اس نے ایسا نہیں کیا،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے یہ بیان اس لیے جاری کیا تاکہ اسلام اور ہندوستان کے مسلمانوں کا دل چھلنی چھلنی کردیا جائے،انہیں مذہبی ٹھیس پہنچایا جائے،مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں سے روکا جائے،انہیں مذہبی حقوق نہ دیا جائے۔
آخر یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ شاپنگ کے لیے مول کھلے ہیں،سفر کے لیے بسیں اس انداز سے چل رہیں ہیں کہ ان میں چیونٹی چلنے کی جگہ تک نہیں ہے،مارکیٹ کے لیے کپڑے،چپل،سبزی،پھل پھروٹ،کھانے کے ہوٹل،کمپنیاں،کارخانے الغرض ساری دکانیں کھلیں ہیں،اور بھیڑ بھی خوب ہورہی ہے،۸۰% لوگوں کے چہرے پر ماسک نہیں ہے،سب ایک دوسرے کے ساتھ بالکل قریب قریب کھڑے ہیں ،کوئی بھی شخص شوشل ڈسٹینسنگ کا پالن نہیں کررہا ہے،میرا موصوفہ سے سوال ہے کہ کیا ان جگہوں پر کرونا نہیں؟اگر ہے تو بسوں ،ہوٹلوں،مول ودیگر دکانوں کو بند کرنے کے لیے اندھ بھکتوں نے آواز کیوں نہ اٹھائی؟ مذہبی عبادتیں کھلیں تو آوازیں اٹھنے لگیں آخر ایسا کیوں؟انہیں بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہوتا،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سب چیزیں ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کھلی ہیں،یہاں صرف ضرورت کی تکمیل پر توجہ ہے ،نہ کہ کرونا سے مقابلہ کی کوئی فکر ہے۔
سارے ادیان وملل کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جب بھی انسان پر کوئی مصیبت ،پریشانی،وبا،کرونا،عذاب آتا ہے تو مسلمان اپنے رب کو یاد کرتا ہے،ہندو اپنے بھگوان کو یاد کرتا ہے،عیسائی اپنے خالق کو یاد کرتا ہے،ودیگر مذاہب کے متبعین ایسے اوقات میں اپنے اپنے خالق ومالک کو یاد کرکے پریشانی سے نجات کی اپیل کرتے ہیں۔
ہم جس جگہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں،ہندو دھرم کے لوگ مندر میں بھگوان کو پوجتے ہیں ،عیسائی چرچ گیٹ میں اپنے گوڈ کو یاد کرتے ہیں،کیاان پوتراور پاک جگہوں پر کرونا یا کوئی بھی بیماری پرویش کرسکتی ہے؟اس سے ہر مذہب کا فرد واقف ہے کہ جب ہم گناہ اور جرم کرتے ہیں تو ہم پر اس کے بدلے وبا،بیماری،عذاب نازل ہوتا ہے۔
اس سے چھٹکارے کی ایک ہی راہ ہے اوروہ اللہ کو یاد کرنا ہے،اس کی بارگاہ میں رورو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے، ہم مسلمانوں کے لیے مسجد سے اچھی جگہ اور کوئی نہیں، جہاں ہم اللہ کی عبادت کرکے خدا کو راضی کرسکتے ہیں اور پھر ہم وبا،مرض،کرونا وغیرہ سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ہمارے رسول ﷺ کا یہی معمول تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت،بیماری،وبا،عام ہوتی آپ اور آپ کے صحابہ مسجد کی طرف جاتے،اللہ کو یاد کرتے،خدا کی عبادت کی تلقین کرتے،اور دعا فرماتے۔
سنن ابی داود میں ہے :قال اتیت انسا فقلت یا ابا حمزۃ ھل کان یصیبکم مثل ھذا علی عھد رسول اللہ ﷺ قال:معاذ اللہ ان کانت الریح لتشتد فنبادر المسجد مخافۃ القیامۃ۔
راوی کہتے ہیں کہ میں حضرت انس کے پاس آیااور کہا کہ اے ابو حمزہ! کیا اس طرح کی مصبیت حضور ﷺ کے زمانے میں تھی،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اللہ کی پناہ اگر ہوا تیز ہوتی تو ہم قیامت کے خوف سے مسجد کی طرف چلے جاتے۔
ایسا ہی ہندو ؤں کے لیے بھی کرونا سے مقابلہ کرنے کے لیے مندر سے اچھی اور کوئی چیز نہیں ،ان کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ وبا،کرونا مندر میں جانے اور بھگوان کوپوجنے سے ختم ہوسکتا ہے۔جیسا کہ ہندؤوکے درمیان چیچک کی بیماری کے لیے ایک مندر’’ مائی سیتلا ‘‘کے نام سے مشہور ومعروف ہے،برصغیر کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سیتلا مندر میں آنے والا ہر چیچک کا مریض صحت یاب ہوجاتا ہے۔
منشی رام پرشاد ماتھر لکھتے ہیں:سیتلا،پاریتی یا دیوی کی ایک اجمالی شکل ہے،چونکہ یہ چیچک کے مریض کو سکون بخشتی ہے،لغت میں بھی سیتلا کا معنی چیچک کی دیوی ملتا ہے۔سیتلا مندر سکھ دور سے قبل کا ہے،اور پھر سکھ عہد میں اس کی تعمیر نو ہوئی، لیکن یہاں کے رہنے والے لوگ اس مندر کو بہت پرانا بتاتے ہیں،ان کے بقول یہ مندر رام نے سیتا مائی کی یاد گار کے طور پر تعمیر کیا اور سیتا مائی بن باس میں یہاں رہیں۔ملتان کے رام تیرتھ مندر کے بارے میں کچھ ایسا ہی دعویٰ کیا گیا ہے۔
سید محمد لطیف لکھتے ہیں،یہ مندر سیتلا ماتا یا چیچک دیوی کے لیے وقف ہے،یہ خاص طور پر ہندؤں اور ان بچوں کی ماؤں کے لیے بہت بڑی عبادت گاہ ہے۔جن کے بچے کو چیچک کی بیماری ہوجاتی تھی وہ دیوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیوی کی پوجا کرتے ،اس کے آگے چڑھاوے چڑھائے جاتے، اور نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔
کپل بجرا چاری نے کہا:اگر بھگوان ناراض ہوتا ہے تو ہم کورونا وائرس سے کہیں زیادہ بڑی پریشانیوں میں پھنس جائیں گے۔
مذکورہ تحریر سے پتہ چلا کہ اہل ہنود کا یہ اعتقاد ہے کہ مندر میں جاکر بھگوان کی پرستش کرنے،چڑھاوا چڑھانے ،اور پوجا کرنے سے پریشانی،مصیبت،وبا،بیماری،آفت سے نجات ملتی ہے،لہذا کرونا سے نجات حاصل کرنے کے لیے مندر جاکر بھگوان کی پرستش کرکے اسے راضی کرنا چاہیے،اور یہ کام استھا اور من سے ہونا چاہیے۔
اندھ بھگتوں سے میری نصیحت ہے کہ اگر واقعی آپ ہندو دھرم کو دل سے ماننے والے ہیں، تو آج ہی سے آپ کو مندر جاکر بھگوان کی پرستش شروع کردینا چاہئے تاکہ کرونا جیسی بیماریوں سے آپ اور آپ کا خاندان محفو ظ ر ہ سکے،نہ یہ کہ آپ اپنا متعصبانہ ،احمقانہ ،غیر دانشمندانہ بیان اخبار،فیس بک،ٹویٹر،یوٹوب کی نذر کرکے ہندوستانی فضا کو مکدر کرنے کی سعی کریں۔ہندو مسلم اختلاف کی ہوادینا بند کریں،بات بات پر اسلام اور مسلمانوں پر اعتراض کرنے سے بچیں۔
میں حکومت مہاراشٹراکو سیلوٹ کرتا ہوں کہ مساجد ومندروچرچ گیٹ ودیگر مذہبی عبادت خانوں کو کھول ان لوگوں کو دندان شکن جواب دیا ہے جو ہمیشہ ایک نیا فتنہ کھڑا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں،اختلاف وانتشار کی ہوا دینے کے لیے آمادہ رہتے ہیں،مسلم واقلیتی طبقہ پر ظلم کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتے۔
آخر میں، میں حکومت مہاراشٹرا سے ریکویسٹ کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے ان کے عبادت خانے کھولنے کی اجازت دی ہے،اسی طرح اسکول اور مدرسے کھولنے کی اجازت بھی دے دیں،تاکہ آٹھ ماہ میں اسٹوڈینس کا جو تعلیمی نقصان ہوا ہے وہ اب نہ ہواور بچے اپنا تعلیمی سال پھر سے شروع کرسکیں۔امید کرتا ہوں کہ حکومت مہاراشٹرا اس پر غور وخوض کرے گی اور بچوں کے مستقبل کے لیے اچھا فیصلہ لے گی۔