تحریر: کنیز حسین مالکؔی امجدؔی بنت مفتی عبد المالک مصباحی، جمشیدپور
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے لیے ہر اچھی چیز کو ہی پسند کرتا ہے وہ حسن و جمال، تعلیم و تعلم، کوئی بھی فلڈ ہو اسے سب سے آگے سب سے اچھے لوگوں میں شمار کیا جانا پسند ہوتا ہے. لیکن _ ہر چیز ہماری قدرت میں نہیں مثلاً خدائے تعالیٰ کی تخلیق کو بدل لینا، یہ بہت جرأت و ہمت اور دلیری کی بات ہے آج جو بہت ترقی یافتہ ہیں وہ سرجری کے ذریعے اپنی تمام کمی کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں. حالانکہ کہ خدائے واحد سے زیادہ خوبصورتی کے ساتھ کوئی بھی کسی چیز کو نہیں سنوار سکتا ہے اگر ہم خوبصورت اور بد صورت ہیں تو ہماری قسمت ہے اسے بدلینا خدا کی عطا سے منہ موڑنا اور خدا کو ناراض کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے- _اب انھیں چیزوں میں سے ایک آواز کی خوبصورتی اور مٹھاس بھی کہ آواز کی خوبصورتی کی وجہ سے کویل سب سے ممتاز ہے. اور گدھے کی آواز سب سے خراب ہے، "إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ” قرآن مجید میں اس کا تذکرہ ہے. تو یہ خوبصورتی اور بدصورتی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے. اس میں انسان کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن اچھی آواز والے بری آواز والوں کا مذاق اڑا کر اور ان کی طنزیہ انداز میں تعریفیں کرکے ان کے دل کو پاش پاش کردیتے ہیں.
اور بعض خوش لحانی سے نعت پڑھنے والے کبھی کبھی یہ سوچتے ہیں "اللہ! جن کی آواز اچھی نہیں ہوتی کیا وہ بھی نعت پڑھتے ہیں؟
اور ایک وہ جن کی آواز پیاری نہیں ہوتی ہے ان کا سوال یہ کہ کیا اچھی آواز والے ہی نعت پڑھ سکتے ہیں؟
اس کا جواب پانا مشکل ہے!!! آواز یہ خدا کی عطا کردہ ایک بہت ہی حسین عطیہ ہے؛ آواز کی اہمیت وہی لوگوں بتا سکتے ہیں جو سن نہیں سکتے اور بول نہیں سکتے ہیں. آواز خوبصورت، پیاری دل کش ہونا کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن حتیٰ الامکان کوشش کی جاسکتی ہے کہ اپنی آواز کو نکھاریں اور اسے دل کش بنائیں.
لیکن آج کا ماحول ایسا ناگفتہ بہ ہے کہ اگر کوئی دل کش آواز میں نعت نبی پڑھے، تو محفل سے واہ واہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اسے سراہا جاتا ہے. اسے اور آگے بڑھایا جاتا ہے –
اس کے برعکس جب کوئی معمولی آواز میں نعت پڑھے، تو آہ آہ کی آواز سے اس کے کان پھٹنے لگتے ہیں. طنزیہ مبارکبادیاں اس کے دل توڑنے کا کام کرتی ہے. اس کی طرف اٹھی نظریں نعت خواں کی نظر کو جھکا دیتی ہیں.
آہ آہ!!! کیا تعلیم دیا تھا ہمارے نبی نے ہمیں اور ہم کیا عمل کررہے ہیں. کسی انسان کا مذاق اڑاکر ان کی دل آزاری کرکے ہمیں جو حاصل ہوتا ہے حقیقت میں وہ ہماری زندگی کو ہلاک و برباد کرسکتا ہے ہماری خوشیوں کو مٹی میں ملا سکتا ہے.
حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر مؤمن کو ہلکی سی تکلیف بھی ہو جائے تو اس کو ثواب دیا جاتا ہے.
سوچیں غور کریں!! جب ہم اتنی تکلیف دیتے ہیں تو ہمارا کیا حشر ہوگا.
حضور نے فرمایا.: تم قرآن کو اپنے آواز کے ذریعے مزین کرو. حضور نے یہ نہیں فرمایا اپنی خوبصورت آواز کے ذریعے مزین کرو.
تو ہم انھیں کی امتی ہیں پھر اپنے آقا ﷺ کے قول پر بجائے عمل پیرا ہونے کے ان سے دور ہو چکے ہیں.
تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں جو آپ کے حوصلے کے محتاج ہیں؛ انھیں یہ خوف آگے بڑھنے سے مانع ہوتا ہے کہ یہ میری ہنسی اڑائیں گے مجھے شرمندہ کریں گے.
خدارا!! آپ ان کی کامیابی کی وجہ بنیں ناکامی کا سبب نہیں.
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب کے عشق سے معمور فرمائے اور دوسروں کی دل آزاری سے بچنے کی توفیق و رفیق عطا فرمائے. آمین!