از قلم : محمد طفیل احمد مصباحی
بہت حسین سہی صحبتیں گُلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
زندگی سراپا حرکت و عمل کا نام ہے ۔ بیکار ہے وہ زندگی جس میں حرکت و عمل کا عنصر شامل نہ ہو اور مفلوج ہے وہ حیات جس میں جہادِ فکر و عمل کا شعلۂ جوّالہ نہ بھڑکتا ہو ۔ سِسکیوں سے شروع ہو کر ہِچکیوں پر ختم ہونے والے مختصر سفر کا نام زندگی ہے ، جس کے قدم قدم پر مسائل و مشکلات کا طوفان ہمارے آہنی عزائم اور مضبوط ارادوں کے تانے بانے بکھیرنے کے لیے ہمہ دم تیار رہتا ہے ۔ بز دل ، کم ہمت اور عیش و عشرت کے خوگر افراد اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر پاتے ، جب کہ بلند حوصلہ اور شاہین صفت افراد اس کا مردانہ وار مقابلہ کر تے ہیں اور طوفانِ حوادث کا رخ موڑ کر وقت کے صفحات پر ایک نئی تاریخ مرتب کر دیتے ہیں ۔ زندگی کے دریا میں موجوں سے کھیلنا ، طوفانوں سے مقابلہ کرنا ، حوادثِ روزگار سے آنکھیں ملانا ، جبر و استبداد کے پنچوں کو مروڑنا ، ملک و معاشرہ کی غلط پرواز کا رخ پھیرنا اور مشکلات کا سامنا کرنا ہی در حقیقت زندگی ہے اور ان تمام چیزوں پر قابو پا لینا ، کامیابی کی علامت ہے ، جس کے بعد کامیابیوں اور کامرانیوں کے سارے دروازے بتدریج کھلنے لگتے ہیں ۔
امیر المجاہدین حضرت علامہ حافظ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ ان او العزم مجاہدین اور شاہین صفت اسلامی قائدین میں سے ایک تھے ، جن کی زندگی حرکت و عمل سے مزین اور اسلام و سنیت کے تحفظ و بقا کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ۔ وقت کے اس جلیل القدر مجاہد کی زندگی سراپا حرکت و عمل تھی ۔ وہ تا دمِ حیات عظمتِ اسلام اور ناموسِ رسالت کے لیے لڑتے رہے اور شیرِ حق بن کر باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو للکارتے رہے ، جن کی پاداش میں انہیں بارہا قید و بند کی مشقتیں جھیلنی پڑیں اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا ۔ لیکن قوم و ملت کا یہ بیباک مجاہد انجام کی پرواہ کیے بغیر استعماری قوتوں کے آ گے ڈٹا رہا اور فتح و نصرت کا پرچم لہراتا رہا ۔
حضرت امیر المجاہدین واقعی خادمِ دین و شریعت اور محافظِ ناموسِ رسالت تھے ۔ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف تحفظِ دین و شریعت تھا ۔ اس لیے انہیں ہر اس فرد ، جماعت اور تحریک و تنظیم سے شدید اختلاف رہا جو ناموسِ رسالت اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے ساتھ کھلواڑ کر نے کے ارادے سے میدان میں آئی ۔ موصوف کے اندر دینی حمیت اور ملی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ وہ ایمان و سنیت کے لٹیروں کو سبق سکھانے کا ہنر خوب جانتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی موقع ملا ، انہوں نے اپنے دینی اصول اور اسلامی نظریات کا کھلم کھلا اظہار کیا اور حق بات بولنے میں مصلحت یا دنیوی منفعت کو آڑے نہ آنے دیا ۔
حضرت امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات کا تفصیلی تذکرہ ایک دفتر چاہتا ہے ، جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ موصوف ایک سچے عاشقِ رسول تھے اور ان تمام عاشقانِ رسول پر اپنی جان چھڑکتے تھے ، جن کے دلوں میں عشقِ رسول کی شمع روشن تھی ۔ عشقِ حقیقی ہی ان کا سرمایۂ حیات اور ان کی زندگی و بندگی کا ماحصل تھا ۔ عظمتِ پیمبر اور تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قابلِ رشک زندگی کا نہایت درخشاں پہلو ہے ۔ اس حوالے سے وہ خود رقم طراز ہیں کہ :
ممتاز قادری کی رہائی کے لیے ہم نے تحریک چلائی اور مظاہرے کیے ۔ اسی حوالے سے کیے گئے ایک مظاہرے کے دوران پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا ۔ جب مجھے گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا تو میری ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ایک پولیس افسر نے طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ ” کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھیکیدار ہو ؟ جب بھی تمہاری تقریر سنو ، ناموسِ رسالت پر بات کرتے ہو ۔ تمہیں اور کوئی موضوع نہیں ملتا ؟ میں نے کہا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھیکیدار تو نہیں ، چوکیدار ضرور ہوں ۔
( علامہ خادم حسین رضوی کا سفرِ زندگی ، ص : 11 )
مزید لکھتے ہیں :
ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کے تحفظ کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے دوران محکمۂ پنجاب اوقاف کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ میں یہ سلسلہ روک دوں ، ورنہ ملازمت چھوڑنی پڑے گی ۔ قصۂ مختصر سرکاری حکم تھا کہ آپ ناموسِ رسالت پر بات نہیں کر سکتے ۔ میرے انکار پر مجھے ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا ۔
( مرجعِ سابق ، ص : ۱۲ )
حضرت امیر المجاہدین علیہ الرحمہ قوم و ملت کے ایک عظیم قائد اور بے لوث خادم تھے ۔ سیادت و قیادت کے بنیادی اصول سے بخوبی واقف تھے اور اس سلسلے میں وہ صحابۂ کرام کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا تھے ۔ تحفظِ شریعت ، دینی استحکام اور ملی مفاد کے تمامی ممکنہ طریقوں کو وہ مسلم معاشرے میں رائج کرنا چاہتے تھے اور اس کام کے لیے وہ ہر آن کوشاں رہتے تھے ۔ جرنیل صحابۂ کرام میں بالخصوص سیف اللہ المسلول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے مداح تھے اور دینِ اسلام کی خاطر ان کی بے پناہ قربانیوں کو یاد کر کے ان کے ملی طریقِ کار اور جذبۂ جہاد کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ خود کہتے تھے : اسلام کے تمام سپہ سالار اپنی مثال آپ ہیں ، لیکن مجھے سب سے زیادہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے متاثر کیا ۔
( مرجعِ سابق ، ص : 10 )
آج عالمی سطح پر مسلمان جس نازک ترین صورتِ حال سے گذر رہے ہیں ، وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ ایسے نا مساعد حالات میں دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابۂ کرام ، اولیائے عظام ، اور علمائے ملتِ اسلامیہ نے جو رہنما اصول ہمیں بتائے ہیں ، ان پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی کے خطبات و ملفوظات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ راقم الحروف نے مندرجہ ذیل سطور میں موصوف کے وقیع ملفوظات کی عصری معنویت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق ارزاں فرمائے ۔ آمین
عشق و محبت خواہ حقیقی ہو یا مجازی ، اطاعت کی جڑ ہے اور اطاعت ، دینی و دنیاوی کامرانیوں کا ذریعہ ہے ۔ یہی وہ ماخذ و منبع ہے جہاں سے ہر قسم کی بھلائیاں جنم لیتی ہیں ۔ عشقِ حقیقی ( جو در اصل اللہ عز و جل ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اولیائے کاملین کی محبت کا نام ہے ) انسان کو خود سپردگی و جاں نثاری کی طرف ابھارتا ہے اور انسان کے اندر تسلیم و اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے ۔ اس لیے دین و دنیا میں کامیاب ہونے اور ہمہ جہت ترقیوں سے ہمکنار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی محبت دلوں میں پیدا کی جائے ۔ جب دلوں میں آپ کی سچی محبت پیدا ہو جائے گی تو لا محالہ من جانب اللہ عبادت و ا طاعت کی توفیق بھی ارزاں ہوگی ۔ اس لیے حضرت امیر المجاہدین فرماتے ہیں :
( ۱ ) ” مسلمانو ! اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اپنے دلوں میں راسخ کر لو ۔ "
( مرجعِ سابق )
آج پوری دنیا میں ظلم و بربریت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ۔ عدل و انصاف کے نام پر کھلے بندوں نا انصافی اور حق تلفی ہو رہی ہے ۔ حقوقِ نسواں اور آزادیِ نسواں کے پُر فریب نعروں کا مقصد عورتوں کی عفت و عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنانا ہے ۔ غرض کہ آج کھلے بندوں انسانی حقوق اور بہو بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے اور اس کی واحد وجہ دینی تعلیمات سے دوری اور آئینِ شریعت کی خلاف ورزی ہے ۔ اگر اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق حکومتیں فیصلہ کرنے لگیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا لایا ہوا دینِ رحمت تخت نشیں ہو جائے اور ہر طرف اسلامی قانون کا بول بولا ہو جائے تو پوری دنیائے انسانیت آنِ واحد میں امن و امان کا گہوارہ بن جائے ۔ اس حوالے سے حضرت امیر المجاہدین کے ملفوظات کا یہ حصہ ملاحظہ کریں اور اس کی عصری معنویت کی داد دیں :
( ۲ ) ” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تخت پر ہوگا تو کوئی کسی کا حق نہیں مار سکے گا ۔ "
” بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت تبھی ہوگی جب حضور علیہ السلام کا دین تخت پر ہوگا ۔ "
حضرت امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کی پوری زندگی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ میں گذری ۔ ان کی زندگی خود دین کے سانچے میں ڈھلی ہوئے تھی اور وہ اپنی قوم کو بھی اسی دینی و مدنی رنگ میں دیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ تا دمِ حیات اس بات کے متمنی رہے کہ کہ مملکتِ خدا داد پاکستان میں ایوانِ حکومت سے لے کر دیگر شعبہ ہائے زندگی اور عوام و خواص کی عام زندگی میں دینی اقدار کا غلبہ رہے ۔ قول و عمل میں مطابقت اور گفتار و کردار میں یکسانیت رہے ۔ ہمارا باطن ، ظاہر کا آئینہ دار ہو ۔ جو کچھ کہا جائے ، پہلے اس پر عمل کر کے دکھایا جائے اور بلند بانگ دعووں کو حقیقت کا جامہ پہنا جائے ۔ گھر میں بیٹھنے سے بات نہیں بنے گی ۔ صحابۂ کرام کی سنتوں کو اپناتے ہوئے احقاقِ حق و ابطالِ باطل کی ہمیں اپنے گھروں سے باہر نکلنا پڑے گا ، تب کہیں جا کر دینِ محمدی کا بول بالا ہوگا ۔ اس لیے حضرت امیر المجاہدین اپنے مجاہدانہ اسلوب اور غازیانہ لب و لہجے میں فرماتے ہیں :
( ۳ ) ” باتوں سے بات نہیں بنے گی ۔ دین نافذ کرنے کے لیے گھروں سے نکلنا ہوگا ” ۔
اس مختصر سے جملے میں جو گہرائی اور عصری معنویت پوشیدہ ہے ، وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
صدق دل سے محض کلمۂ طیبہ کا اقرار کر لینا ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ مسلمان ہونے کا مطلب ہے : دینِ اسلام کی اطاعت کا پٹہ اپنی گردن میں ڈالنا اور اخلاص کے ساتھ اللہ و رسول کے احکام و فرامین پر عمل کرتے ہوئے دعوائے ایمان و اسلام کا ثبوت دینا ۔ کسی بالغ نظر شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الہٰ را
یعنی جب میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں ، کیوں کہ کلمۂ طیبہ کی مشکلات کو میں جانتا ہوں ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مقدس میں ایک مقام پر اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ ٱلْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ ٱلْبَأْسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ اٰمَنُواْ مَعَهُ ۥ مَتَىٰ نَصْرُ ٱللَّهِ ۗ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ .
( قرآن کریم ، سورۃ البقرۃ ، 214 )
ترجمہ : کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ؟ حالانکہ تمہیں وہ ( حالات ) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں ۔ انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا دیے گئے ۔ یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سنو ! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے ۔
غرض کہ مذہبِ اسلام ہم سے قربانی مانگتا ہے ۔ جذبۂ ایثار کا مطالبہ کرتا ہے اور سرفروشی کا عملی نمونہ ہمارے اندر دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ایمان کو نوع بنوع مسائل و مشکلات اور ابتلا و آزمائش کے حوصلہ شکن مراحل سے گزارا جاتا ہے ۔ تب کہیں جا کر ایمان مکمل ہوتا ہے اور دین و دنیا کی سرفرازیاں نصیب ہوتی ہیں ۔ اس تناظر میں امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کا یہ قول آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے :
( 5 ) ” اسلام قربانیوں کا نام ہے ، چیخنے چِلانے کا نہیں ” ۔
دینی و دنیاوی عزت و رفعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت و فرماں برداری پر موقوف ہے اور ” لبیک یا رسول اللہ ” اسی اطاعت و فرماں برداری کا سرفروشانہ اظہار ہے ۔ حضرت امیر المجاہدین علیہ الرحمہ جس ملی قیادت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے ، اس کا پہلا اور بنیادی نعرہ یہی تھا ۔ خفتہ اور پژمردہ قوم کو بیدار کرنے کے لیے ” نعرۂ تکبیر و رسالت ” کی ضربِ پیہم کی سخت ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ موصوف نے پوری زندگی فکری و عملی طور پر یہی کام کیا ۔ اپنے خطبات و ملفوظات کے قوم کے اذہان و قلوب کو گرماتے رہے اور اس کی بے حس رگوں میں تکبیر و رسالت کے ایمان بخش صور پھونکتے رہے ۔ موصوف کی قیادت میں حمایتِ ملی اور تحفظِ ناموسِ رسالت کی خاطر فیض آباد اور دیگر مقامات کا تاریخ ساز احتجاج اسی ” نعرۂ تکبیر و رسالت ” کا نتیجہ تھا ، جس نے حکومتِ پاکستان کے ایوان میں زلزلہ برپا کر دیا تھا ۔ موصوف زندگی بھر یہی پیغام دیتے رہے کہ :
( ۵ ) ” اگر دنیا و آخرت میں عزت چاہتے ہو تو ” لبیک یا رسول اللہ ” کا نعرہ لگا دو ” ۔
حضرت امیر المجاہدین علیہ الرحمہ اپنی تحریک سے وابستہ تمام حضرات کو دین دار ، خدا ترس اور شریعت کا غایت درجہ پابند دیکھنا چاہتے تھے ۔ ان کے وعظ و تلقین کا بنیادی عنصر دین ، اقامتِ دین اور نفاذِ دین ہوتا اور وہ اس سلسلے میں صحابۂ کرام رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کے طریقۂ کار پر عمل پیرا تھے ۔ موصوف اپنے مریدوں اور عاشقوں کو دینِ اسلام کا سچا خادم اور صحابۂ کرام جیسا بے لوث اور بیباک مجاہد بنانا چاہتے تھے ۔ وہ فرماتے کہ اسلام تمہارا محتاج نہیں ہے ، تم اس دینِ رحمت کے محتاج ہو ۔ تم دینِ اسلام کے احکام و ہدایات پر دل و جان سے عمل کرو ، عزت و رفعت اور عظمت و شوکت تمہارے ہاتھوں میں ہوگی ۔ مندرجہ ذیل دونوں ملفوظ ملاحظہ کریں اور عہدِ حاضر میں ان کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگائیں ۔
( 6 ) صحابۂ کرام نے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی نماز نہیں چھوڑی اور تم اعلیٰ قسم کا کھانا کھا کر کہتے ہو کہ دین پر چلنا مشکل ہے !!
( ۷ ) اگر کوئی اسلام کی مدد نہ کرنا چاہے تو اسلام اس کی مدد کا محتاج نہیں ہے ۔ اسلام تو کمزوروں کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ وہ ظالموں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور فتحیاب ہو جاتے ہیں ۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ قومِ مسلم حضرت امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کی سیرت و کردار اور ان کے اقوال و ارشادات پر عمل کرے اور ان کے مشن کو آ گے بڑھاتے ہوئے دامے درمے قدمے سخنے اپنا تعاون پیش کرے ۔