سیرت و شخصیات

سراج الاولیاء الحاج الشاہ سید نور علی زرمتی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کا مختصر تعارف

تحریر : ابو طلحہ محمدمنصور عالم نوری مصباحی

ولادت : بمقام دیہہ سادات ضلع زرمت ،افغانستان تقریبا سنہ ۱۳۳۸ھ / سنہ ۱۹۰۷ع

اسم گرامی : سید نورعلی ،لقب حضور عالی ،عالی حضور ،سراج الاولیاء ۔

والد بزرگوار : حضور سیدنا الشاہ سید عبد العلی بن سید خواجہ محمد برادر علاتی حضرت سید فدا محمد عبد الکریم علیہ الرحمہ ۔

تعلیم و تربیت: آپ نے ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی اور کم عمر میں ہی تقریبا ۱۴ سال کی عمر میں اپنے والد اور چچا کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے اور دربھنگہ کے ایک قدیم ادارہ بنام دارالعلوم حمیدیہ قلعہ گھاٹ میں کتب متداولہ ، معقولات ومنقولات کی تعلیم حاصل فرمائی ۔

خلافت و اجازت : علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد روحانی منازل سلوک طئے کرنے کے لیے اپنے ہی وطن میں قندھار کے قریب پنجوائی میں حضرت سیدنا سرکار میرا جان آغا رحمة اللہ علیہ کی خانقاہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں تشریف لے گئے اور سلوک کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور اپنے مرشد برحق سرکار میراجان رحمة اللہ علیہ سے بھرپور اکتساب فیض فرمایا ۔
حضرت میرا جان آغا علیہ الرحمہ نے حضور عالی کو سلسلۂ نقشبندیہ کی اور آپ کے والد سید عبد العلی صاحب رحمة اللہ علیہ نے سلسلۂ قادریہ کی خلافت و اجازت عطا فرمائی جب کہ آپ کو سلسلہ چشتیہ کی بھی خلافت و اجازت حاصل تھی ۔

گدی نشینی و سجادگی: ابھی حضور عالی اپنے پیرومرشد کے فیوض وبرکات سے مالامال ہوہی رہے تھے کہ بایمائے حضرت مولانا سمرقندی دربھنگوی جد امجد حضور عالی وبایمائے مرشد گرامی آپ ہندوستان دوبارہ تشریف لائے اس وقت حضور عالی کے والد عبدالعلی اور عم کریم عبد الھادی علیہما الرحمہ ( بڑے سید صاحب اور چھوٹے سید صاحب ) دونوں اس فانی دنیا سے رحلت فرماچکے تھے ۔
جب حضور عالی ہندوستان تشریف لائے تو یہاں موقع دیکھ کر ایک حضرت نے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہا اور گدی نشینی و سجادگی کا دعویٰ کردیا ۔فیصلہ یہ طئے پایا کہ درگاہ معلیٰ یعنی مزار اعلیٰحضرت مولانا سمرقندی علیہ الرحمہ میں دونوں صاحبان حاضری دیں جن کے لیے دروازہ خود بخود کھل جائے حقدار وہی ہے ۔
چنانچہ پہلے وہی حضرت گئے مگر دروازہ نہ کھلا بعد میں حضور عالی تشریف لے گئے تو درگاہ شریف کا دروازہ خود بخود کھل گیا جس سے لوگوں نے صاف طور پر سمجھ لیا کہ گدی نشینی کا حق اور سجادگی کا حق حضور عالی ہی کا ہے ۔
"حق بحقدار رسید "

دارالعلوم فدائیہ کا قیام اور خدمات دینی
آپ ایک علم دوست بزرگ تھے علمائے کرام کے قدردان تھے اور فروغ علم دین کا جذبہ رکھتے تھے ۔ آپ خانقاہ سمرقندیہ کو علم وادب کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے ۔ اسی جذبہ کے تحت تقریبا سنہ ۱۹۶۸ ع میں خانقاہ عالیہ سمرقندیہ میں دارالعلوم فدائیہ کی سنگ بنیاد رکھی گئی ۔ یہ دارالعلوم مختصر ایام میں تشنگان علوم دینیہ کا گہوارہ بن گیا دور دراز کے طلباء خصوصیت کے ساتھ بہار و بنگال کے طلباء کثیر تعداد میں یہاں داخلہ لے کر علمی پیانس بجھانے لگے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ علم دین کے متلاشی یہاں سے علم دین و عشق رسول ﷺ دل میں بساکر قوم کا رہبر بن کر آج ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے مختلف اطراف میں دین و مذہب کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
حضور عالی کی سرپرستی میں خانقاہ عالیہ سمرقندیہ دربھنگہ کے علاوہ بہار و بنگال کے مختلف علاقوں میں کثیر تعداد میں مدارس و مساجد کی بنیاد رکھی گئی جہاں سے علم و عمل کی شمع روشن ہورہی ہیں ۔
علاقہ اسلام پور ، رام گنج ، پوٹھیا ، طیب پور ،سونا پور اور ٹھاکرگنج میں آپ کی سب سے زیادہ خدمات ہیں اور اس علاقہ میں کثیر تعداد میں آپ کے مریدین پائے جاتے ہیں اور آپ کے مریدین آپ سے والہانہ محبت رکھتے ہیں اور آپ پر جان چھڑکتے ہیں ۔ ان کی محبتوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ان اطراف کے لوگوں نے آپ کی طرف منسوب کرکے اپنے گاؤں اور قصبوں کی مسجدوں کا نام نوری مسجد اور مدرسوں کانام مدرسہ نوریہ ، نوری مدرسہ اور دارالعلوم نور الاسلام وغیرہ رکھا ہے ، اسلام پور، طیب پور ٹھاکرگنج میں عالی شان نوری مسجد ہیں اور حتیٰ کہ چوک چوراہے کا نام بھی نوری چوک رکھے ہیں ۔ اور سالانہ جلسوں کا نام بھی زیادہ تر نوری کانفرنس سے موسوم ہوتا ہے ۔
طیب پور میں ۱۹۹۴ میں ایک انجمن قائم کی گئی ۔سیدی اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمة والرضوان اور آپ کے اسم گرامی کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس کا نام انجمن رضائے نوری رکھا گیا جس کے تحت معاشرتی صلاح و فلاح کے کام کے ساتھ ساتھ ہر سال ماہ شوال میں جشن یوم رضا وفدا کا شاندار پروگرام منعقد کیا جاتا ہے ۔
الغرض آپ کی وجہ سے اس علاقہ میں علم و عمل کے میدان کافی بیداری آئی ۔ والدین کے اندر اپنے بچوں کو پڑھانے ، لکھانے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ اس علاقے کے بچے کثیر تعداد میں حافظ قرآن ، عالم دین اور قاری قرآن بنے ۔
ایک موقعہ پر ممبئی میں شیخ اعظم پیر طریقت حضرت علامہ اظہار اشرف صاحب قبلہ رحمةاللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت مولانا اقبال صاحب مرحوم رسیا اتر دیناجپور بنگال سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ مولانا ! آپ کے علاقے میں سنیت کی خدمت تو سید صاحب ہی کررہے ہیں ہم لوگ جاتے ہیں تقریر کرکے صبح چلے آتے ہیں ۔مہینوں مہینہ علاقے میں رہ کر سید (نورعلی) صاحب سنیت کو فروغ دے رہے ہیں یہ انہیں کا حق ہے ۔

وصال پر ملال : آپ علیہ الرحمہ کو اللہ رب العزت نے ۱۱۰ سال کی لمبی عمر عطا فرمایا اور آپ نے اس پوری زندگی کو خدمت دین و خدمت خلق میں گزاری ۔ مورخہ ۱۲ سمبر ۲۰۱۷ع بمطابق ۲۱ ذوالحجہ ۱۴۳۸ ھ منگل کی شب یہ اندوہناک خبر بجلی بن کر گری تھی کہ حضور عالی اپنے تمام مریدین ،معتقدین ،متوسلین اور متعلقین کو ظاہر طور پر داغ مفارقت دے کر واصل بحق ہوگئے ہیں ۔

ابر کرم ان کی مرقد گہر باری کرے ۔
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے