تحریر: نازش مدنی مرادآبادی
مخدوم قوم وملت ، امام الصرف، امیر المجاہدین، استاذ العلماء ،شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ خادم حسین رضوی قد س سرہ العزیز یوں تو پورے عالم اسلام میں محافظ ناموس رسالت کے لحاظ سے متعارف ہیں۔مگر علماء طبقہ اس سے بھی بخوبی واقف ہے کہ آپ علیہ الرحمہ فقط ایک روحانی قائد اور سیاسی لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ آپ ایک تجربہ کار استاد اور شیخ الحدیث بھی تھے بلکہ یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ کی حیات طیبہ کا بیشتر حصہ درس و تدریس میں گزرا سوائے آخری چند سالوں کے آپ نے مسلسل کئی سالوں تک جامعہ نظامیہ لاہور اور جامعہ نعمانیہ لاہور میں تدریسی فرائض انجام دیے اور آپ کے تلامذہ ہزاروں کی تعداد میں ملک و بیرون ملک میں علم کی شمع روشن کررہے ہیں۔ یوں تو آپ چاہے کوئی بھی فن ہو اس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے مگر خاص طور پر آپ کو فن صرف میں انتہا درجہ کا درک حاصل تھا اور قلبی لگاؤ بھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے :
حضرت کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کو صرف پڑھانے کا اس قدر لگاؤ تھا کہ جب جامعہ نظامیہ لاہور میں تدریس کرتے تھے تو آپ کئی سال مسلسل ابتدائی درجوں کو صرف پڑھاتے رہے آگے کے درجات میں کوئی کتاب نہیں پڑھاتے مگر استاذ العلماء قبلہ علامہ حافظ عبد الستار سعیدی دام ظلہ العالی کے پیہم اصرار پر آپ نے مطول کتب کا درس دینا شروع کیا۔
اس واقعہ سے واضح ہو گیا کہ آپ علیہ الرحمہ کو فن صرف پڑھانے کا کس قدر شوق تھا کہ آپ منتہی کتب زیر درس نہیں رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ علیہ الرحمہ نے باضابطہ فن صرف میں دو کتابیں بھی تصنیف فرمائی ایک ” تیسیر ابواب الصرف” یہ گردانوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا ہے بحمد اللہ تعالیٰ فقیر کو بابا جی کی اس شہرہ آفاق کتاب کو اولیٰ درجہ میں پڑھنے کی شرف حاصل ہواہے۔ اس لحاظ سے فقیر بخوبی جانتا ہے کہ قبلہ حافظ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ نے کس تندہی اور جانفشانی سے اس کو سپرد قرطاس کیا، اور کیسےکیسے لعل وگوہر اس میں پروئے، دوسری کتاب ” تعلیلات خادمیہ” اس کو بھی اگر تعلیلات کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تومبالغہ نہ ہوگا اس لیے کہ قبلہ امیر المجاہدین قدس سرہ العزیز نے اس میں ایسے نادر و نایاب صیغوں کی تعلیلات کا ذکر کیا ہے جو عام طور پر کتب صرف نہیں ملتے۔ اس کے علاوہ آپ علیہ کے حسب ارشاد مفتی فیاض احمد سعیدی دام ظلہ شیخ الحدیث جامعہ غوثیہ رضویہ لاہور نے فن صرف کی معرکۃ الآراء کتاب "مراح الارواح” کی شرح بنام "انوار خادمیہ شرح مراح الارواح” تصنیف فرمائی جو قبلہ امیر المجاہدین قدس سرہ کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اور آپ علیہ الرحمہ کے نام سے موسوم ہے۔ اسی طرح علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ کا فن صرف سے لگاؤ کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ خود فرماتے ہیں کہ فقیر الحمدلله قرآن عظیم کے الحمد سے ناس تک تمام ضیغوں کا حافظ ہے۔
اسی طرح اس کا ثبوت آپ کے خطابات سے مل جاتا ہے کہ کئی تقاریر میں آپ جذبات میں آکر پوری پوری گردان سنا دیا کرتے تھے اور بعض اوقات تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دوران تقریر ہی کسی طالب علم کو قرآن کی کسی آیت کو پڑھ کر اس کے مخصوص صیغے کی گردان سننے لگتے تھے اور صحیح سنانے پر اس طالب کو انعامات سے بھی نوازتے تھے۔
بہر حال آپ کو فن صرف سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا تھے جیسا کہ آپ نے ابھی ملاحظہ فرمایا
دعاگو ہوں اللہ جل شانہ امام الصرف علامہ حافظ خادم حسین رضوی قدس سرہ کی علمی و روحانی فیض سے ہم تمام کو بہرہ ور فرمائے
آمین بجاہ طہ ویس