تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
ہر امتی کا تعلق ان کے نبی و رسول سے ضرور ہوتا ہے۔ہمارا تعلق بھی ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے یقینی طور پر ہے۔قرآن وحدیث اور لاتعداد کتب ورسائل ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والتسلیم کے فضائل و محاسن و محامد و مناقب کے ذکر سے مزین و آراستہ ہیں۔
ایک حصہ زندگی کا گزر گیا اور کبھی کشکول لے کر اپنے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار اعظم میں حاضر نہ ہوا۔درحقیقت کبھی اس جانب توجہ ہی نہیں ہو سکی۔
جب مصیبتوں پر مصیبتیں آنے لگیں تو قریبا دس سال قبل ایک بندہ خدا نے فون کر کے کہا کہ میں دربار رسالت علی صاحبہا التحیۃ والثنا میں حاضر ہوں۔میں نے گزارش کی کہ میری فلاں مصیبت دور ہونے کی عرضی پیش کردیں۔
کئی سالوں سے سارا گھر پریشان حال تھا۔عرضی پیش ہوتے ہی دفع مصیبت کی کاروائی شروع ہوگئی,پھر دیکھتے ہی دیکھتے جن مصیبتوں کی عرضی ہم نے پیش نہیں کی تھی,ان کا حل بھی ہونے لگا۔حد تو یہ ہے کہ مستقبل کی مصیبتوں پر بھی نظر رکھی جانے لگی۔
اب تو میرا حال یہ ہے کہ میں نے مصیبتوں سے گھبرانا چھوڑ دیا اور مجھے سو فی صد یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالی ہماری ہر مصیبت میں دربار اعظم سے دستگیری ہو گی۔حالیہ دس سالوں میں ہماری بڑی اور شدید مصیبتوں کو کافور کر دیا گیا۔
کچھ مشکلات آج بھی ہیں اور یقین کامل ہے کہ ان شاء اللہ تعالی رفتہ رفتہ تمام مصیبتیں نیست و نابود ہو جائیں گی۔ہم نے بھی یہ طریقہ اپنا لیا ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کسی کی معرفت دربار اعظم میں اپنی عرضی بھیج دیتا ہوں اور آفات و مصائب کے بادل چھٹنے لگتے ہیں۔
پہلے کبھی میں((وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین))کی تفسیر و تشریح کتابوں میں پڑھتا تھا اور اب اپنی ان ظاہری آنکھوں سے آیت مقدسہ کی تفسیر و توضیح کا مشاہدہ کرتا ہوں۔
وہ خلیفہ الہی ہیں۔وہ زندہ جاوید ہیں۔وہ نعمت خداوندی کے قاسم ہیں۔وہ تاجدار کائنات ہیں۔ان سب حقائق صادقہ وعقائد حقہ کے معانی و مطالب ہم اور ہمارے اہل خانہ اپنی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں۔
ہمارے بہت سے موافق و مخالف جو ہمارے موجودہ حال اور ماضی کے احوال سے واقف و آشنا ہیں,وہ بھی اعتراف کرنے لگے ہیں اور ان شاء اللہ تعالی چند سالوں بعد باقی دیگر موافق و مخالف اور دوست و دشمن کو بھی خوش طبعی کے ساتھ یا مجبورا اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔
حضور اقدس تاجدار کائنات علیہ الصلوۃ والسلام یقینا کائنات خداوندی میں بالاتفاق ہر ایک مخلوق سے عظیم ترین اور دربار خداوندی میں سب سے معزز ترین ہیں اور ہماری حیثیت آں حضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی بلندترین عظمت ورفعت کی طرف نسبت کرتے ہوئے ویسی ہی ہے,جیسی نسبت عدم کو وجود سے ہے۔وہ ہست ہیں تو ہم نیست ہیں,لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بادشاہ فقیروں کی طرف نظر کریں:
چہ عجب گر شاہاں بنوازند گدا را
وہ سلطان بحر و بر جو رحمت کائنات ہوں,ان کی نطر تو کائنات پر ضرور ہو گی۔بس کشکول لے کر چلو اور الطاف خسروانہ وانعامات شاہانہ سے اپنے دامن مراد کو بھر لو۔