تحریر: محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ،پٹنہ
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، اِرا میڈیکل کالج اور ہاسپیٹل کے صدر، آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے جنرل سکریٹری، انجمن وظیفۂ سادات ومومنین کے رکن، ماہر تعلیم، نامور مقرر، مشہور شیعہ عالم، شیعہ سنی اتحاد کے علم بردار ڈاکٹر کلب صادق صاحب کا اکاسی (۸۱)سال کی عمر میں اِرا ہاسپیٹل لکھنؤ میں بدھ کی رات منگل کا دن گزار کر دس بجے انتقال ہو گیا، تاریخ تھی ۲۴/ نومبر٢٠٢٠ء کی، ان کی وفات ملک و ملت دونوں کے لیے خسارے کا سبب ہے۔ نماز جنازہ بروز بدھ ۲۵/ نومبر کو اِرا میڈیکل کالج کے میدان میں ساڑھے بارہ بجے دن میں ادا کی گئی اور تدفین امام باڑہ غفران مآب میں عمل میں آئی،جنازے کی نماز ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کے ہندوستانی نمائندہ مولانا مہدی مہدوی پور نے پڑھائی،دوسری نماز جنازہ کی امامت گھنٹہ گھر کے سامنے سنی عالم و امام جامع مسجد ٹیلہ شاہ مولانا فضل المنان رحمانی نے کی۔ دو بجے دن میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں علم و عمل کا یہ آفتاب زیر زمین غروب ہو گیا، انہیں نمونیہ، کینسر اور انفیکشن کا عارضہ لاحق تھا،وہ طویل عرصے سے بیمار چل رہے تھے، اس سے قبل ان کے انتقال کی خبر ایک ہفتہ پہلے بھی پھیلی تھی، لیکن ان کے جسم و جان کا رشتہ منقطع نہیں ہوا تھا، لیکن موت برحق ہے، سب کو ایک دن جانا ہے، ڈاکٹر کلب صادق بھی آخر ت کے سفر پر روانہ ہو گئے، پسماندگان میں انہوں نے بیوہ، تین لڑکے اور ایک لڑکی کو چھوڑا۔
ڈاکٹر کلب صادق بن سید کلب حسین ۲۲/ جون ۱۹۳۹ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، انہوں نے مذہبی تعلیم لکھنؤ میں واقع سلطان المدارس سے پائی، پھر وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے، جہاں سے انہوں نے بی اے، ایم اے کی تعلیم مکمل کی، پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں کیا، انہوں نے اپنے نامور والد کے ورثہ کو حاصل کیا اور پوری دنیا میں ذاکر و مجتہد کے طور پر مشہور ہوئے، انہوں نے محرم کی مجلس اور ذکر کے لیے دنیا کے بہت سارے ملکوں کا سفر کیا، وہ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں میں بولنے، لکھنے اور پڑھنے کی مضبوط صلاحیت رکھتے تھے، وضع قطع سے نفاست ٹپکتی تھی، ٹوپی جب دو پلی پہنتے تو اس کے دونوں سرے سر کے بیچ میں رہا کرتے تھے۔ٹوپی پہننے کا یہ انداز میں نے شیعہ سنی کسی عالم میں نہیں پایا، وہ تعلیم کے فروغ کے لیے پوری زندگی کوشاں رہے، انہوں نے غریب طلبہ و طالبات کے وظائف کا نظم کیا، ان کے لیے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے، میڈیکل کالج اور ہاسپیٹل بھی قائم کیا، وہ کہا کرتے تھے کہ قومیں عمارت سے نہیں تعلیم سے بنا کرتی ہیں، تعلیم کے فروغ کے بغیر ہم ملت کو آگے نہیں بڑھا سکتے، لکھنؤ کے شیعہ سنی فساد کو ختم کرانے اور ہم آہنگی بنانے میں بھی ان کی خدمات مثالی رہی، انہوں نے مسلسل جد و جہد سے اس تناؤ کو کم کیا، جو لکھنؤ کی شناخت بن گئی تھی۔
ڈاکٹر کلب صادق سے میری ملاقات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس گاندھی میدان میں پہلی بار ہوئی تھی،سال اب یاد نہیں۔گاندھی میدان میں انہوں نے جوتقریر کی تھی اس کا ایک اقتباس ذہن و دماغ میں اب بھی محفوظ ہے،فرمایا کہ لوگ دولت و شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں، حالانکہ علم حاصل کر لو تو دولت بھی ملتی ہے اور شہرت بھی حاصل ہو جاتی ہے،جو لوگ بغیر علم کے دولت وشہرت چاہتے ہیں ان سے دونوں روٹھ جاتی ہے، علم کے میدان میں آگے بڑھنے سے ساری خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔
گاندھی میدان میں اس پہلی ملاقات کے بعد پھر ملاقاتوں کایہ سلسلہ دراز ہو تا چلا گیا، وہ پٹنہ آتے تو اکثر و بیشتر تھوڑا وقت امارت شرعیہ آنے کے لیے ضرور نکالتے،ایسا ہی ایک موقع تھا عارف اقبال کی کتاب ’باتیں میر کارواں کی‘ کے اجراء کا، یہ تقریب المعہدالعالی امارت شرعیہ کے میدان میں ہوئی تھی، اس تقریب میں انہوں نے شرکت کی تھی، اور تقریر میں انہوں نے اپنے خطاب میں امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب کوئی ڈھیلا ندی اور تالاب میں پھینکا جا تا ہے تو بھنور پیدا ہو تا ہے، پانی میں اچھا ل آتا ہے، لیکن مولانا سید نظام الدین صاحب کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ کتنے پتھر پھینکئے ان میں اچھال نہیں آتا، نہ یہ ابلتے ہیں اور نہ ہی اچھلتے ہیں،اس اعتبار سے مولانا کی شخصیت مثالی ہے، میں نے اتنا ٹھنڈا آدمی نہیں دیکھا، جس پر نہ تو تعریف و توصیف اثر انداز ہو تی ہے اور نہ ہی تنقید سے وہ کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں ہفتۂ وحدت کے موقع سے میرا ایران کا سفر ہوا، قافلے میں ہندوستان سے کئی لوگ تھے، جن میں ڈاکٹر قاسم رسول الیاس بھی شریک ہوئے تھے، تہران کے جس ہوٹل میں ہم لوگوں کو ٹھہرایا گیا تھا، اسی میں ڈاکٹر کلب صاد ق کا بھی قیام تھا، یہ اتفاق تھاکہ ہم دونوں کے کمرے الگ الگ لیکن متصل تھے، ڈاکٹر صاحب مجھے اپنے ساتھ رکھتے، امارت شرعیہ کا اور میرا بھی تعارف حلقے کے لوگوں سے کراتے رہتے، کھانے کے لیے بھی اپنے ساتھ لے جاتے اور پوری توجہ مرکوز رکھتے، ایک دن ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا کمرہ بند تھا، میں کھانے کے لیے اکیلے چلا گیا، وہ کچھ دیر سے پہونچے، میرے ٹیبل کے پاس آئے اور فرمایا کہ آپ نے بوڑھے کو چھوڑ دیا، اس سفر میں وہ مجھے قم اور دوسرے شہر بھی گھمانا چاہتے تھے لیکن میرے پاس وقت کی کمی تھی، اس لیے میں لوٹ کر ہندوستان آگیا۔
وہ اپنی تقریروں میں شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی سے نجف میں اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے اور فرماتے کہ میں سنیوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں، پھر کہتے کہ ہمارے مرجع نے کہا کہ تم انہیں صرف بھائی نہ سمجھو، انہیں میری روح
اور م
یری جان کہو۔اس کا تذکرہ انہوں نے امارت شرعیہ میں اپنی گفتگو میں بار بار کیا، ایک بار وہ امارت شرعیہ تشریف لائے، عشاء کی نماز کا وقت تھا،ہم لوگوں نے انہیں جائے نماز دی کہ آپ یہیں پر نماز پڑھ لیں، کہنے لگے کیوں؟ میں جماعت سے آپ لوگوں کے ساتھ ہی نماز پڑھوں گا، جماعت خانے میں تشریف لے گئے اور ساتھ ہی نماز اداکی۔
انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھی اچھی خدمات انجام دیں، جس کا ذکر صدر اور جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے تعریفی کلمات میں کیا ہے، ان کے بعض بیانات، خیالات اور فکر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے، اور کس کے افکار و بیانات میں نہیں ہوا کرتی؟ لیکن ملت کے تئیں ان کے احساسات اور خدمات کا جذبہ بڑا قابل قدر تھا۔ان کی زندگی کا نصب العین تعلیم کا فروغ تھا، انہوں نے یونٹی (Unity)کے نام سے لکھنؤ میں کالج، اسکول، انڈسٹریل ٹریننگ سنٹر، اِرا چیریٹیبل ہاسپیٹل، کمپیوٹر سنٹر وغیرہ قائم کیے، انہوں نے تعلیم کے لیے لکھنؤ کے علاوہ علی گڑھ، بارہ بنکی، الٰہ آباد، شیکھر پور وغیرہ میں بھی تعلیمی ادارے قائم کیے، وہ ایک بافیض شخصیت کے مالک تھے،ایسی شخصیتیں مر کر بھی زندہ رہتی ہیں، ان کے کارنامے اور ان کی خدمات لوگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوتی ہیں، اور لوگ انہیں بھلا نہیں پاتے،ڈاکٹر کلب صادق بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے اور انہیں بھلانا آسان نہیں ہو گا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، اِرا میڈیکل کالج اور ہاسپیٹل کے صدر، آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے جنرل سکریٹری، انجمن وظیفۂ سادات ومومنین کے رکن، ماہر تعلیم، نامور مقرر، مشہور شیعہ عالم، شیعہ سنی اتحاد کے علم بردار ڈاکٹر کلب صادق صاحب کا اکاسی (۸۱)سال کی عمر میں اِرا ہاسپیٹل لکھنؤ میں بدھ کی رات منگل کا دن گزار کر دس بجے انتقال ہو گیا، تاریخ تھی ۲۴/ نومبر۰۲۰۲ء کی، ان کی وفات ملک و ملت دونوں کے لیے خسارے کا سبب ہے۔ نماز جنازہ بروز بدھ ۲۵/ نومبر کو اِرا میڈیکل کالج کے میدان میں ساڑھے بارہ بجے دن میں ادا کی گئی اور تدفین امام باڑہ غفران مآب میں عمل میں آئی،جنازے کی نماز ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کے ہندوستانی نمائندہ مولانا مہدی مہدوی پور نے پڑھائی،دوسری نماز جنازہ کی امامت گھنٹہ گھر کے سامنے سنی عالم و امام جامع مسجد ٹیلہ شاہ مولانا فضل المنان رحمانی نے کی۔ دو بجے دن میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں علم و عمل کا یہ آفتاب زیر زمین غروب ہو گیا، انہیں نمونیہ، کینسر اور انفیکشن کا عارضہ لاحق تھا،وہ طویل عرصے سے بیمار چل رہے تھے، اس سے قبل ان کے انتقال کی خبر ایک ہفتہ پہلے بھی پھیلی تھی، لیکن ان کے جسم و جان کا رشتہ منقطع نہیں ہوا تھا، لیکن موت برحق ہے، سب کو ایک دن جانا ہے، ڈاکٹر کلب صادق بھی آخر ت کے سفر پر روانہ ہو گئے، پسماندگان میں انہوں نے بیوہ، تین لڑکے اور ایک لڑکی کو چھوڑا۔
ڈاکٹر کلب صادق بن سید کلب حسین ۲۲/ جون ۱۹۳۹ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، انہوں نے مذہبی تعلیم لکھنؤ میں واقع سلطان المدارس سے پائی، پھر وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے، جہاں سے انہوں نے بی اے، ایم اے کی تعلیم مکمل کی، پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں کیا، انہوں نے اپنے نامور والد کے ورثہ کو حاصل کیا اور پوری دنیا میں ذاکر و مجتہد کے طور پر مشہور ہوئے، انہوں نے محرم کی مجلس اور ذکر کے لیے دنیا کے بہت سارے ملکوں کا سفر کیا، وہ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں میں بولنے، لکھنے اور پڑھنے کی مضبوط صلاحیت رکھتے تھے، وضع قطع سے نفاست ٹپکتی تھی، ٹوپی جب دو پلی پہنتے تو اس کے دونوں سرے سر کے بیچ میں رہا کرتے تھے۔ٹوپی پہننے کا یہ انداز میں نے شیعہ سنی کسی عالم میں نہیں پایا، وہ تعلیم کے فروغ کے لیے پوری زندگی کوشاں رہے، انہوں نے غریب طلبہ و طالبات کے وظائف کا نظم کیا، ان کے لیے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے، میڈیکل کالج اور ہاسپیٹل بھی قائم کیا، وہ کہا کرتے تھے کہ قومیں عمارت سے نہیں تعلیم سے بنا کرتی ہیں، تعلیم کے فروغ کے بغیر ہم ملت کو آگے نہیں بڑھا سکتے، لکھنؤ کے شیعہ سنی فساد کو ختم کرانے اور ہم آہنگی بنانے میں بھی ان کی خدمات مثالی رہی، انہوں نے مسلسل جد و جہد سے اس تناؤ کو کم کیا، جو لکھنؤ کی شناخت بن گئی تھی۔
ڈاکٹر کلب صادق سے میری ملاقات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس گاندھی میدان میں پہلی بار ہوئی تھی،سال اب یاد نہیں۔گاندھی میدان میں انہوں نے جوتقریر کی تھی اس کا ایک اقتباس ذہن و دماغ میں اب بھی محفوظ ہے،فرمایا کہ لوگ دولت و شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں، حالانکہ علم حاصل کر لو تو دولت بھی ملتی ہے اور شہرت بھی حاصل ہو جاتی ہے،جو لوگ بغیر علم کے دولت وشہرت چاہتے ہیں ان سے دونوں روٹھ جاتی ہے، علم کے میدان میں آگے بڑھنے سے ساری خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔
گاندھی میدان میں اس پہلی ملاقات کے بعد پھر ملاقاتوں کایہ سلسلہ دراز ہو تا چلا گیا، وہ پٹنہ آتے تو اکثر و بیشتر تھوڑا وقت امارت شرعیہ آنے کے لیے ضرور نکالتے،ایسا ہی ایک موقع تھا عارف اقبال کی کتاب ’باتیں میر کارواں کی‘ کے اجراء کا، یہ تقریب المعہدالعالی امارت شرعیہ کے میدان میں ہوئی تھی، اس تقریب میں انہوں نے شرکت کی تھی، اور تقریر میں انہوں نے اپنے خطاب میں امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب کوئی ڈھیلا ندی اور تالاب میں پھینکا جا تا ہے تو بھنور پیدا ہو تا ہے، پانی میں اچھا ل آتا ہے، لیکن مولانا سید نظام الدین صاحب کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ کتنے پتھر پھینکئے ان میں اچھال نہیں آتا، نہ یہ ابلتے ہیں اور نہ ہی اچھلتے ہیں،اس اعتبار سے مولانا کی شخصیت مثالی ہے، میں نے اتنا ٹھنڈا آدمی نہیں دیکھا، جس پر نہ تو تعریف و توصیف اثر انداز ہو تی ہے اور نہ ہی تنقید سے وہ کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں ہفتۂ وحدت کے موقع سے میرا ایران کا سفر ہوا، قافلے میں ہندوستان سے کئی لوگ تھے، جن میں ڈاکٹر قاسم رسول الیاس بھی شریک ہوئے تھے، تہران کے جس ہوٹل میں ہم لوگوں کو ٹھہرایا گیا تھا، اسی میں ڈاکٹر کلب صاد ق کا بھی قیام تھا، یہ اتفاق تھاکہ ہم دونوں کے کمرے الگ الگ لیکن متصل تھے، ڈاکٹر صاحب مجھے اپنے ساتھ رکھتے، امارت شرعیہ کا اور میرا بھی تعارف حلقے کے لوگوں سے کراتے رہتے، کھانے کے لیے بھی اپنے ساتھ لے جاتے اور پوری توجہ مرکوز رکھتے، ایک دن ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا کمرہ بند تھا، میں کھانے کے لیے اکیلے چلا گیا، وہ کچھ دیر سے پہونچے، میرے ٹیبل کے پاس آئے اور فرمایا کہ آپ نے بوڑھے کو چھوڑ دیا، اس سفر میں وہ مجھے قم اور دوسرے شہر بھی گھمانا چاہتے تھے لیکن میرے پاس وقت کی کمی تھی، اس لیے میں لوٹ کر ہندوستان آگیا۔
وہ اپنی تقریروں میں شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی سے نجف میں اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے اور فرماتے کہ میں سنیوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں، پھر کہتے کہ ہمارے مرجع نے کہا کہ تم انہیں صرف بھائی نہ سمجھو، انہیں میری روح
اور م
یری جان کہو۔اس کا تذکرہ انہوں نے امارت شرعیہ میں اپنی گفتگو میں بار بار کیا، ایک بار وہ امارت شرعیہ تشریف لائے، عشاء کی نماز کا وقت تھا،ہم لوگوں نے انہیں جائے نماز دی کہ آپ یہیں پر نماز پڑھ لیں، کہنے لگے کیوں؟ میں جماعت سے آپ لوگوں کے ساتھ ہی نماز پڑھوں گا، جماعت خانے میں تشریف لے گئے اور ساتھ ہی نماز اداکی۔
انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھی اچھی خدمات انجام دیں، جس کا ذکر صدر اور جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے تعزیتی کلمات میں کیا ہے، ان کے بعض بیانات، خیالات اور فکر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے، اور کس کے افکار و بیانات میں نہیں ہوا کرتی؟ لیکن ملت کے تئیں ان کے احساسات اور خدمات کا جذبہ بڑا قابل قدر تھا۔ان کی زندگی کا نصب العین تعلیم کا فروغ تھا، انہوں نے یونٹی (Unity)کے نام سے لکھنؤ میں کالج، اسکول، انڈسٹریل ٹریننگ سنٹر، اِرا چیریٹیبل ہاسپیٹل، کمپیوٹر سنٹر وغیرہ قائم کیے، انہوں نے تعلیم کے لیے لکھنؤ کے علاوہ علی گڑھ، بارہ بنکی، الٰہ آباد، شیکھر پور وغیرہ میں بھی تعلیمی ادارے قائم کیے، وہ ایک بافیض شخصیت کے مالک تھے،ایسی شخصیتیں مر کر بھی زندہ رہتی ہیں، ان کے کارنامے اور ان کی خدمات لوگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوتی ہیں، اور لوگ انہیں بھلا نہیں پاتے،ڈاکٹر کلب صادق بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے اور انہیں بھلانا آسان نہیں ہو گا(بشکریہ نقیب)