تحریر: انوارالحق قاسمی، نیپال
عالمی ادارہ ازہر ہند دارالعلوم/دیوبند کےہونہار پہلے فرزند،تحریک ریشمی رومال کےبانی،عظیم مجاہد آزادی ،بےمثال مفسر قرآن، عظیم محدث،علوم عقلیہ ،نقلیہ کے امام ،کئی نسلوں کے معلم ومربی،علوم قاسمیہ کے محافظ، دارالعلوم /دیوبند کے شیخ الحدیث،سراپا مخلص انسان، سادگی پسند اور سادہ مزاج حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی بتاریخ 12/ربیع الاول سن 1339ھ مطابق 30/نومبر1920ء بروز منگل کو "دہلی”میں آخری سانس لیتے ہوئے اس فانی دنیا کوالوداع کہہ کر ہمیشگی کی دنیامیں داخل ہوگئے:انالله وإنا اليه راجعون. تغمده الله بغفرانه. حضرت شیخ الہند کے والد محترم حضرت مولانا محمد ذوالفقار علی صاحب بریلی میں بحیثیت ملازم مقیم تھے،تو والد صاحب کے زمانہ ملازمت ہی میں حضرت شیخ الہند سن 1268ھ میں بریلی میں پیداہوئے؛مگر آپ کی نشو و نما آپ کے آبائی وطن دیوبند ہی میں ہوئی۔
قرآن کریم اور فارسی کی مختلف کتابیں حضرت میاں جی منگلوری، حضرت مولانا مہتاب علی صاحب اور شیخ عبداللطیف صاحب سے پڑھیں۔
حضرت شیخ الہند-رحمۃ اللہ علیہ -ہی دارلعلوم /دیوبندکے پہلے طالب علم ہیں، جس نے اپنے ہم نام استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے دنیا والوں کے لیے ایک مثال بن گئے۔
حضرت نے جن تابندہ اور درخشندہ علمی شخصیات سے کسبِ فیض کیا ہے، ان میں سے چند کے اسماء بطور خاص ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ ان کی علمی قابلیت سے حضرت کی علمی قابلیت و صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکے؛ کیوں کہ استاذ کی قابلیت کااثرشاگرد پر مرتب ہوتا ہے اور جس پایہ معلم ہوتا ہے ،اسی پایہ کامتعلم بھی ہوتا ہے۔
تو لیجئے ان اہم شخصیات کے اسماء ملاحظہ فرمائیں:(1) قاسم العلوم والخیرات، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی_ رحمۃ اللہ علیہ(2) حضرت مولانا سید احمد علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(3) حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ _ حضرت مولانا مہتاب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب رحمہ اللہ۔
آپ نے سن 1289ھ میں دارالعلوم /دیوبند سےسند فضیلت حاصل کی اور آپ کی دستار بندی دارالعلوم/ دیوبند کے پہلے اجلاس منعقدہ سن 1292ھ میں ہوئی۔
دارالعلوم/ دیوبند سے علوم عالیہ کی تکمیل اور سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد فورا ہی یعنی 1289ھ میں دارالعلوم نے آپ کو معاون مدرس کی حیثیت سے بحال کر لیا ،اور پھر دارالعلوم /دیوبند کے ارباب حل و عقد نے آپ کی علمی قابلیت اور نمایاں انداز درس کو دیکھتے ہوئے سن 1292ھ میں باضابطہ آپ کی بحالی کرلی ، اور پھروقت قریب ہی میں آپ سے دورہ حدیث شریف کی چند اہم اور مستند کتابیں متعلق ہوگئیں، جن کاآپ بڑے ہی نرالے انداز میں درس دیا کرتے تھے اور پھر سن 1305ھ میں آپ کے حوالہ دارالعلوم/دیوبند کی مسند صدارت کی گئی ،جوتاحیات آپ سے متعلق رہی۔
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ میں تصنیف و تالیف کوبھی بہت اچھا ذوق تھا ،آپ جو بھی تحریر لکھتے تھے مواد سے بھرپور رہتی تھی اور ہر تحریر ہزاروں صفحات کا خلاصہ رہتی تھی۔
آپ کے تصنیفی کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ” ترجمہ قرآن "ہے جو حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے "ترجمہ قرآن” کو آپ نےآسان اردو میں منتقل کر کے اہل علم وقلم اور عوام پر ایک بڑا احسان کیا ہے،واضح رہے کہ یہ پہلابامحاورہ "اردو ترجمہ قرآن "تھا۔
یہ کام تو آپ نے سن 1327ھ میں دیوبند ہی میں شروع کر دیا تھا ؛لیکن اس کی تکمیل اسارت مالٹا کے دور میں ہوئی۔
آپ کا دوسرا اہم کارنامہ جو آپ نے دنیا والوں کے لئے بطور مثال چھوڑ گئے ہیں،وہ ” الابواب والتراجم للبخاری” ہے ان کے علاوہ آپ نے غیر مقلدیت کے رد میں "ادلہ کاملہ” اور "ایضاح الادلہ” نیز حاشیہ "مختصرالمعانی” اور تصحیح "ابوداؤد شریف”اور بھی دیگر مختلف علمی علمی رسائل آپ کی یادگار ہیں۔
حضرت مالٹا سے رہائی کے بعد ایک مرتبہ بعد نماز عشاء اساتذہ دارالعلوم سے مخاطب ہو کر بڑےہی درد بھرے لہجے میں اپنے دل کی آواز سنانے لگے کہ :ہم نے مالٹاکی زندگی میں دو اہم سبق سیکھے ہیں، میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو اہم سبب معلوم ہوئے ہیں(1)ان کاقرآن چھوڑنا(2)ان کاآپس میں اختلاف اور خانہ جنگی ،اس لیے میں وہیں سے عزم لےکر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی قرآن کریم کی تعلیم عام کرنے اور مسلمانوں کےآپسی اختلافات ختم کرنے میں صرف کروں گا۔
آزای ہند کےلیےحضرت کی عملی جدوجہد: شیخ الہند اپنے استاذ خاص ،بحرالعلوم حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویعلیہ الرحمہ کے حکم سےسن 1878ء میں ایک انجمن بنام "ثمرة الترتیب” قائم کیا ،جس کا اصل مقصد آپ کے پیش نظر سن 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے لئے رجال سازی تھا، اور جب” ثمرة الترتیب "اپنی لازوال محنتوں کے ذریعہ
انگریزوں کی نگاہوں میں کانٹوں کی طرح شدت سے چبھنے لگی، تو حضرت نےاسی” ثمرة الترتیب "کو”جمعیة الانصار” کے نام سے موسوم کر کے آگے بڑھایا اور اس کے ذمہ دارحضرت مولانا عبیداللہ سندھیرحمہ اللہ قرار پائے۔
اور جب "جمعیة الانصار "بھی انگریز کی نگاہوں میں آگئی تو آپ نے ایک اور انجمن دہلی میں” نظارة المعارف” کے نام سے قائم کی اور اس تحریک کے بڑے ہی سرگرم ومتحرک و فعال رکن شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی کے توسط سے خلافت عثمانیہ کے وزیرجنگ "غالب پاشا” اور وزیر بحریہ” انور پاشا” سے ملاقاتیں کیں، جن میں معاہدات بھی کیے گئے ۔
حجاز کے گورنر” جمال پاشا”نے ان ہندی علماء کی عملی صلاحیتوں اور حصول آزادی کےجنوں کودیکھا،توکیاہی خوب فرمایا: کہ جس ملک نے مولانا محمود الحسن جیسے لوگوں کو جنم دیا ہے، بھلا اس ملک کو بھی کوئی مدت مدید تک غلام بنا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں !مولانا کی زندگی تمام لوگوں کے لئے ایک نادر مثال ہے۔
چند طےشدہ امور ایک خاص قسم کے ریشمی رومالوں پر لکھ کر تحریک کے مراکز میں ارسال کیا گیا ؛مگر بدقسمتی سے عین موقع پر ہی سن 1917ء میں تحریک کا راز فاش ہو گیا اورحضرت کو ان کے چارا ہم شاگردوں(یعنی حضرت مولانا حسین احمد مدنی، مولانا وحید احمد مدنی ، مولانا عزیز گل اور حکیم نصرت حسین صاحب) سمیت مالٹاکے ایک انتہائی سرد قیدخانے میں ڈال دیئے گئے،بس اسی عملی کارکردگی کانام "تحریک ریشمی رومال” ہے۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمتہ اللہ علیہ کے تلامذہ نے سن 1919ء میں حضرت کےدوراسارت میں ” جمعیۃ علماء ہند "کی داغ بیل ڈالی، اور اس کا باقاعدہ پہلا اجلاس 28/ دسمبرسن 1919ء کو” امرتسر” میں حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اور جمیعت کادوسرااجلاس سن 1920ء میں حضرت شیخ الہند کی صدارت میں منعقد ہوا ،جس میں ترک موالات کا وہ اہم فیصلہ کیا گیا، جس کے مطابق انگریزوں کے دیئے ہوئے تمام سرکاری خطابات،عہدے، کونسل کی ممبری، فوجی ملازمت ترک کرنا، نیز انگلستان سے تجارتی تعلقات ختم کرنا، سرکاری تعلیم اور عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے بائیکاٹ اور سرکاری امداد سے پرہیز جیسے تاریخی نوعیت کے فیصلے کیے گئے۔
قید و بند کی زندگی سے جو ں ہی حضرت شیخ الہند آزاد ہوئے اور وطن تشریف لاتے ہی استعماری حکومت کے خلاف ترک موالات کا فتویٰ صادر فرمایا ،جس سے ملک میں کافی جوش وخروش پیداہوا؛حتی کہ لوگ مسلم یونیور سٹی علی گڑھ تک بند کرنے پر آمادہ ہوگئے۔
ملک ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کرنے کے لئے اسلام پر جاں نثار نوجوانوں کی فوج تیار کرنے کے لئے حضرت شیخ الہند نے دلی میں” نیشنل مسلم یونیور سٹی ” کی بنیاد رکھی تھی، جو”جامعہ ملیہ اسلامیہ”کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
اس موقع سے یعنی 29 /اکتوبر سن 1920ء بروز جمعہ کو حضرت نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا تھا: کہ میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میں آپ کی دعوت پر صرف اس لیےلبیک کہا ہے: کہ میں اپنی گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔
بہت سے نیک بندے ہیں جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے ،لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے: کہ خدارا اٹھو! اور اس امت مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاؤ ،تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس مسلط ہو جاتا ہے، خدا کا نہیں ،بل کہ چند نا پاک ہستیوں کا اوران کے سامان حرب وضرب کا۔
حالاں کہ ان کو تو سب سے زیادہ جاننا چاہئے تھا کہ خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو وہ خدا کا غضب اور اس کا قاہرانہ انتقام ہے۔
اس مختصر مضمون میں حضرت علیہ الرحمہکی جملہ خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالنا،انتہائی دشوارہے۔