تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم: امارت شرعیہ وناظم وفاق المدارس الاسلامیہ، پٹنہ
بات ان دنوں کی ہے ، جب میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا ، جناب شاہ نواز احمد خان صاحب بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سکریٹری تھے اور مولانا شکیل احمد قاسمی جواہر نو ودیہ ودیالیہ چائی باسہ میں ٹیچر ہوا کرتے تھے ، تینوں میں ایک بات قدرِ مشترک تھی کہ تینوں مختلف اوقات میں طلبہ تحریک سے وابستہ رہ چکے تھے، اور تعلیم وتربیت کے نئے نئے منصوبوں کے وضع کرنے میں طبیعت خوب لگتی تھی اور ذہن خوب چلتا تھا ، ایک ملاقات میں ہم تینوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی تاریخ مرتب کی جائے تاکہ اس کے پردے میں بہار کی مذہبی تعلیم کی تاریخ بھی مرتب ہوجائے، اس کے لئے قرعہ مجھ دیوانے کے نام نکل آیا ، ابا بکر پور سے پٹنہ میری خدمت منتقل کر لی گئی ، اور میں اس کی صحرانوردی میں لگ گیا، کم وبیش چار سال کی محنت کے بعد جب تصنیف سے فراغت ہوئی تو اس وقت کے چیر مین پروفیسر محمد سہراب مرحوم ومغفور کا مشورہ ہو اکہ اسے نظر ثانی کے لئے جناب غلام سرور صاحب کی خدمت میں پیش کرنا چا ہئے، وہ دیکھ بھی لیں اور اس پر مقدمہ بھی لکھ دیں ، چنانچہ کتاب کے مسودہ کی فوٹو کاپی مجلد ان کی خدمت میں پیش کر دی گئی ،میں مطمئن ہو گیا ، اگلے ہفتہ حکم ہوا کہ آپ کو غلام سرور صاحب نے بلایا ہے ، مرتا ، کیا نہ کرتا۔
ملاقاتیں دو پہلے بھی تھیں ، ایک بار مولانا شکیل احمدقاسمی کے ساتھ ملا تھا، جب وہ افتخار اکبر کے ساتھ مل کر تجسس نکالنے کا ارادہ کر رہے تھے اور غلام سر ور صاحب کے پاس اس راستے کے پیچ وخم معلوم کرنے اور مشورہ لینے پہونچے تھے ، اس موقع سے غلام سرور صاحب نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اس کام میں مت لگو، مجھے دیکھو پوری زندگی لگا دیا ، نتیجہ کیا نکلا ؟ اس ملاقات میں مولانابیتاب صدیقی مرحوم بھی تھے ، انہوں نے اس موضوع پر کچھ کہنا چاہا ، تو مولانا شکیل احمدقاسمی نے انہیں روک دیا، ملاقات بہت اچھی نہیں رہی تھی ، وجہ یہ تھی کہ وہ جو کچھ صحافت کے حوالہ سے کہہ رہے تھے ، اس میں مایوسی کی جھلک تھی ،جوان خون ان کی مایوس کن باتوں سے مایوس ہوا. ہم لوگوں کے پاس تجربہ تو تھا نہیں ، تجربہ انہیں کے پاس تھا ، اور جب تجسس کے چند شمارے نکال کر افتخار اکبر نے اسے بند کر دیا تو یقین کرنا پڑا کہ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔
دوسری ملاقات مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کے ایک جلسہ میں ہوئی تھی، گرج دار، پاٹ دار آواز ، آج بھی کانوں سے ٹکراتی محسوس ہوتی ہے، تقریر کی ابتدا میں ہی واضح کر دیا تھا کہ مجھے نہ نذرانہ چاہئے نہ محنتانہ ، نہ رخصتانہ اور نہ ہی ہرجانہ ، اس لئے جو کہوں گا ، صاف صاف کہوں کا اور حق کہوں گا، حق کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا، پھر انہوں نے مدرسہ بورڈ کی تشکیل میں اپنی جد وجہد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے ذاتی گناہ تو اللہ معاف کر دے گا، ، یہ میرا اجتماعی گناہ ہے ، خدا معلوم یہ قابل معافی ہویا نہ ہو، وہ مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کی کار کر دگی سے غیر مطمئن تھے اور جب وہ غیر مطمئن ہوتے تو ان کا لب ولہجہ خاصہ غضب ناک ہوجا تا تھا، وہ اس زمانہ میں اسپیکرتھے۔مجھے ان کے یہاں حاضری لگانی تھی. تاکہ تاریخ مدرسہ بورڈ پر انکی رائے لی جا سکے.
ان کے یہاں جانے سے پہلے دوستوں سے ان کے مزاج کے بارے میں جاننے کی کوشس کی جن کی آمد ورفت ان کے یہاں برابر رہتی تھی ، کہنے لگے کہ میرا ذکر نہیں کیجئے گا کہ آپ کا تعلق مجھ سے ہے ،میں نے ایسے دوستوں پر چار حرف پڑھے ،جو اتنا بھی ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے، حکم حاکم مرگ مفاجات، ڈرتا ڈرتا پہونچا، مجھے ایک صاحب نے بتا دیا تھا کہ پہلی ڈانٹ ان کی سن لیجئے گا اور اس کے بعد جو کہیے گا وہ سنیں گے ، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا ، پہلے وہ خوب گرجے ، آپ کانگریسی ہیں ،بورڈ میں نے بنایا اور سارا کریڈٹ گورنر کو آپ نے دیدیا ، یہ بے انصافی کی بات ہے ، اسے صحیح کیجئے۔ خاموش ہوئے تو میں نے کہا آپ جو کچھ داخل کرنا چاہتے ہیں، وہ مجھے دیدیجئے ،میں شامل کر دوں گا، بالکل نرم پڑ گئے، ایک کتاب تھمائی اور کہا مواد اس میں سے لے لیجئے اور ایک ہفتہ بعد آئیے، چنانچہ میں واپس آگیا ، ایک ہفتہ بعد حاضری ہوئی ، پوچھا ، شامل کر دیا میں نے کہا ، نہیں ، فرمایا ، کیوں؟ میں نے کہا کہ یہ تاریخ ہے ، قصیدہ نہیں ، اس کتاب سے کچھ شامل کرنے کا مطلب قصیدہ خوانی ہے ، اور میں نہیں چاہتا کہ میری کتاب کی تاریخی حیثیت مجروح ہو ،پھر گرجنے لگے ، فرمایا ، جہاں جہاں آپ نے مجھ سے علمی اختلاف کیا ہے میں نے اسے برداشت کر لیا ، لیکن یہ تو تاریخی غلطی ہے ، میں نے کہا تاریخ وہ نہیں ہے جو آپ کہہ رہے ہیں تاریخ یہ ہے کہ آرڈی نینس کئی جاری ہوئے، سب پر گورنر کے دستخط ہیں ، اس حوالہ سے ان کا ذکر ہے ، وزیر تعلیم کی حیثیت سے آپ نے بورڈ کی تشکیل میں جد وجہد کی ہے، اس کا ذکر بھی پورے انصاف کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ بات آگے بڑھی تو مدارس ملحقہ کی کار کر دگی پر آواز اٹھا نا شروع کر دیا ، میں بھی ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں تھا ، اس لئے گویا ساری چوٹ مجھ پر پڑ رہی تھی ، میں نے عرض کیا کہ آپ اپنی رائے من وعن لکھ دیں اور وہ مقدمہ کی شکل میں اس کتاب کی زینت بن جائے ، اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے ، بات ا نہیں پسند آگئی، لکھا اور خوب لکھا ، مدرسہ بورڈ اور مدارس ملحقہ کے حوالہ سے جو شکایات انہیں تھیں بلا خوف لومۃ لائم اس کا اظہار اس مقدمہ میں انہوں نے کیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس تحریر میں سارا کرب الفاظ میں اڈیل دیا ہے، انہوں نے اس مسودہ پر جو نشانات لگائے اور جو تصحیح کی ہے ،وہ آج
بھی
نوراردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ویشالی میں موجود ہے ، پہلی بار انہوں نے مجھے بتایا اور بتایا کیا کتاب میں نشان لگا دیاکہ’’ حضرت مولانا ‘‘کے ساتھ آخر میں ’’صاحب ‘‘نہیں لگے گا کہنے لگے نام کے آگے پیچھے دونوں طرف القاب وآداب لگانا قواعد کے خلاف ہے، اور یہ صرف مولویانہ اردو میں ہی پایا جاتا ہے۔
کتاب کا اجرا ڈاکٹر ظہیر الدین صاحب کی دورصدارت میں ہوا، ان دنوں وہ بیمار چل رہے تھے ، شاہ نواز احمدخان صاحب جن کی تحریک پر یہ کام شروع ہوا تھا، مجھے لے کر ان کی سرکاری رہائش گاہ پر گئے ، بہت تپاک سے ملے، کتاب پیش کیا، خوش ہوئے ، ناشتہ وغیرہ کرایا، شاہ نوازخان کی جو شامت آئی تو انہوں نے پوچھ دیا کہ راعین کے کیا معنی ہیں ؟فرمایا : آپ نے شمس الہدیٰ سے پڑھا ہے بتائیے ، شاہ نواز صاحب نے معاملہ میری طرف محول کر دیا کہ یہ عربی کے اسکالر ہیں ، ، میری طرف گھور کر دیکھا ، میں نے کہا نگراں کے آتے ہیں ، بس بگڑنے لگے ، کیوں نہیں کہتے چرواہا کے آتے ہیں میں نے کہا: چرواہا کو بھی چرواہا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بکری کا نگراں ہوتا ہے ، میں نے کہا ، حدیث میں آیا ہے ’’کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ شاہنواز صاحب نے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں سے آکر ہندوستان میں آباد ہوئے کہنے لگے ثابت کردوہم غیر ملکی ہیں ،تم سب اسی کام پر لگے ہوئے ہو ، ہم لوگ یہیں پلے بڑھے اور یہ نسل یہیں پروان چڑھی ، یہ خالص ہندی نسل ہے ، تیور اتنے سخت تھے کہ تھوڑی دیر بعد ہم لوگوں کو لوٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی ۔یہ تھے غلام سر ور ، بے باک ، بے خوف ، جوبات بیٹھ گئی، بیٹھ گئی ، جہاں اڑ گئے، اڑ گئے،کلیم عاجز صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ غلام سرور تو شیر تھا سیاست میں قید ہو کر رہ گیا‘‘ ۔
پھر میں امارت شرعیہ آگیا، یہاں رہتے ہوئے کبھی ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔ اپنی مخصوص افتاد طبع کی وجہ سےپچاس کی دہائی میں امارت شرعیہ اور اس کے اکابر بھی ان کی قلم کی زد میں آتے رہے ، بہت سارے مواقع پر انہو ں نے امارت کی کار کر دگی پر سوالات اٹھائے ؛لیکن جب انہوں نے امارت شرعیہ کو قریب سے دیکھا اور ۱۲؍ جون ۱۹۶۳ئ کو یہاں تشریف لائے تو انہیں بے پناہ مسرت ہوئی ، انہوں نے اپنی اس مسرت کا اظہار امارت شرعیہ کے معائنہ بک میں کیا اور لکھا کہ:
’’ آج پہلی بار اس کا موقع ملا کہ امارت کے دفتر میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اس کے مختلف شعبوں کی کار کر دگی سے واقفیت حاصل کی جائے، بیت المال ، دار القضاء ، نقیب ، دار الاشاعت وغیرہ کے شعبے مسلمانوں کے لئے جو کام کر رہے ہیں وہ صرف غنیمت ہی نہیں بلکہ بہت غنیمت ہے ، اس دور میں مسلمانوں کو ان کے دین کی طرف رجوع کرنا اور ان کی امداد واعانت کرنی ،نیز ان کے باہمی مقدمات کا از روئے شریعت فیصلہ کرنا اہم کام ہےاور اس اعتبار سے آج بھی امارت مفید کام کر رہا ہے، اس کے کاموں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کو لازم ہے کہ امارت کے کاموں میں نہ صرف دلچسپی لیں ، بلکہ عملاً اشتراک وتعاون کا ہاتھ بھی دراز کریں‘‘