نتیجۂ فکر: محمدعثمان ندوی
نائب مہتمم دارالعلوم نورالاسلام جلپاپور
بسمل کی طرح ہم کو سن بیس نے تڑپایا
دکھ،دردوالم لایا ،اور رنج ومحن لایا
مزدور ہوئے بےگھرپیدل ہی چلےوہ گھر
کھانےکوبھی ترسایا ،پینےکوبھی ترسایا
اندھیرہوئی دنیاسنسان ہوئیں راہیں
پولیس کےڈنڈوں نے کتنوں کوہےگرمایا
مسجدمیں لگے تالے،مندرمیں لگی بندش
بارش کی طرح تونےوہ ظلم وستم ڈھایا
اجڑےہیں مدارس بھی ،اسکول بھی اجڑے ہیں
بچوں نےغلط رستےدنیامیں ہےاپنایا
این آرسی کاچکردردرکی لگی ٹھوکر
شرطوں کوپڑھاجب ہی سراپنابھی چکرایا
بازارپڑے ہیں ٹھپ تاجر ہیں سبھی حیراں
سامان ہوئے مہنگے بےموت ہی مروایا
سن بیس تیرادامن رنگیں ہے خونوں سے
لنچنگ میں بہت تونے معصوم کوکٹوایا
دلی کی خنک راتوں ،یخ بستہ ہواؤں میں
حق مانگنےکی خاطر بوڑھوں کونکلوایا
تاریخ بنی تیری اے جامعہ ملیہ
لاٹھی تیرے بچوں پرپولیس نے برسایا
اےبیس کروناکی لعنت ہےترےسرپر
دنیانےابھی تک بھی آرام نہیں پایا
سازش ہےبہت گہری دنیاکےلٹیروں کی
پرتونےہمیں اپنےافکارہی سمجھایا
لڑنے کوپھر نکلے ہیں پنجاب اور ہریانہ
اس پل بھی کسانوں نے سکھ چین نہیں پایا
اک ٹیس ہے جوڑوں میں اوردردہےسینوں میں
انسان کےلئےکتنی مشکل سی گھڑی لایا
نہ چین ملادن میں نہ رات ملی راحت
ہرمسئلہ آساں تونےبہت الجھایا
اللہ کےہاتھوں میں کنجی ہےزمانےکی
یہ رازبہت میں نےانسان کوہےسمجھایا
ہرسمت مرےمولی پھرامن واماں کردے
سن بیس ترےعثماں کوراس نہیں آیا