نتیجۂ فکر: برکت اللہ فیضی
حیا وشرم کو زیور بنا لیتی تو اچھا تھا
نگاہ ناز کو اپنی جھکا لیتی تو اچھا تھا
نئی تہزیب نے لاکھوں کمند یں ڈال رکھی ہیں
تو اس کے جال سے خود کو بچا لیتی تو اچھا تھا
تیرے ہاتھوں میں ھے ملت کے مستقبل کا سرمایہ
اسے اسلام کا رستہ بتا دیتی تو اچھا تھا
تیری گودوں نے بیشک خالد و طارق کو پالا تھا
تو وہ تاریخ زریں کاش دہراتی تو اچھا تھا
ھے تیرا نام عورت کاش مریم جیسی تو بنتی
وہی کردار دنیا کو دکھا دیتی تو اچھا تھا
ہوئ محروم نسل نو تیری ممتا کی شفقت سے
تو اس کو اپنے سینے سے لگا لیتی تو اچھا تھا
سبھی بچوں کی جنت تیرے قدموں سے ھے وابستہ
تو اپنے گھر کو اک جنت بنا لیتی تو اچھا تھا