صبح فجر بعد پروفیسر صاحب اور ان کی اہلیہ چہل قدمی کے بعد لوٹے تو گلی میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ انیسہ خالہ کی لڑکی ادیبہ جو کہ قریب 13 سال کی ہوگی مدرسہ جارہی ہے، انیسہ خالہ کے پاس نفیسہ، جمیلہ اور پورے محلے میں عبادت گزار اور بزرگ سمجھی جانے والی نادرہ چاچی بھی تھیں، پروفیسر صاحب نے اپنی اہلیہ سے سرگوشی کرتے ہوے کہا کہ اتنی بڑی لڑکی کو یہ لوگ مدرسے بھیجتے ہیں، پروفیسر صاحب کی اہلیہ نے آگے بڑھ کر سب کو سلام کیا اور بیٹھ گئیں، پہلے ان لوگوں کی خیریت دریافت کی تو سب نے کہا الحمد للہ! ہم سب خیریت سے ہیں، آپ سنائیں، بولیں کیا سنائیں بی پی بڑھا رہتا ہے دوا پر زندگی چل رہی ہے، بڑھاپے میں سو روگ لگ جاتے ہیں، دیکھو کتنے دن چل پاتے ہیں –
پھر انجان بنتے ہوئے انیسہ خالہ کی طرف اپنے سوال کی توپ کا رخ پھیرتے ہوے سوالیہ گولا داغ دیا، ارے اتنی صبح صبح یہ ادیبہ کہاں جاتی ہے؟ کوچنگ جاتی ہے کیا؟ انیسہ خالہ نے جواب دیا نہیں، وہ مدرسہ جاتی ہے، پروفیسر صاحب کی اہلیہ ذکیہ فاخرہ نے ایک نظر مجمع پر ڈالی، ان کے سوال کا کسی پر کوئی اثر نہ ہوا تھا، سب نے یہی سمجھا کہ ایسے ہی پوچھ رہی ہیں… ذکیہ صاحبہ رد عمل نہ دیکھ کر بولیں، زمانہ بڑا خراب ہے، بچے بڑے ہوجائیں تو بہت احتیاط کی ضرورت ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ اتنی بڑی بچیوں کو مدرسے نہیں بھیجنا چاہیے، ہاں آگر پڑھوانا ہی ہو تو گھر پر ہی پڑھوانا چاہیے، ویسے بھی بچے جب قرآن شریف، میلاد پڑھ لیں تو پھر اور پڑھائی کی کیا ضرورت ہے؟ خدا نہ خواستہ کچھ اونچ نیچ ہو جائے تو کس کو منہ دکھائیں گے –
اکثر خواتین نے ہاں میں ہاں ملائی اور اپنے اپنے تبصروں کے گولے داعنے لگیں،سوائے نادرا چاچی کے، وہ بات تو بخوبی سمجھ رہی تھیں پر اپنی بنی ہوئی عزت کو حق بات کہہ کر بزعم خیش بگاڑنا نہیں چاہ رہی تھیں سو وہ بھی سنتی رہیں، ذکیہ صاحبہ نے مزید تبصرے جاری رکھے جیسے فلاں جگہ یہ ہوا، فلاں جگہ وہ ہوا، انیسہ خالہ بہت دیر تک سنتی رہیں، پھر بولیں : ذکیہ باجی! یہ بتائیں کہ آپ کی لڑکی کہاں پڑھ رہی ہے؟ ذکیہ فاخرہ نے اسم با مسمی کی کامل تصویر بنتے ہوئے فاخرانہ انداز میں کہا : دہلی میں انجینئرنگ کر رہی ہے، انیسہ خالہ نے کہا اچھا….. پھر پوچھا، اور کسی رشتہ دار کی بچیاں یا بچے بھی اس کے ساتھ پڑھتے ہیں؟
فاخرہ صاحبہ بولیں، ہوں!!!!!پروفیسر صاحب کے خاندان والوں کے پاس اتنا کہاں رکھا ہے کہ وہ اتنی مہنگی پڑھائی کرا سکیں، سب نکھٹو، کام چور ہیں، ایک یہی ہیں جو خاندان کے” کوہ نور” ہیں – اس بات پر سبھی نے زوردار قہقہہ لگایا….. پروفیسروں صاحب بھی کھڑکی کے پاس ہاتھوں میں اخبار لیے گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے، آخر ان کی اہلیہ ان کی ہی بات تو کہہ رہی تھی…..
انیسہ خالہ ایک قدم مزید بڑھیں اور اپنے ترکش کا آخری تیر استعمال کرتے ہوئے بولیں کہ پھر وہ اکیلی رہتی ہے؟ "فاخرہ صاحبہ بولیں، ہاں! اکیلے رہتی ہے فلیٹ لیا ہوا ہے، دس ہزار روپے مہینہ تو صرف فلیٹ کا ہی کرایا ہے، بیس پچیس ہزار روپے خرچ آتا ہے مہینے کا، سستے بھی مل رہے تھے لیکن وہ علاقہ گندہ تھا…..
اہل محفل فاخرہ صاحبہ کی طرف للچائی اور رشک سے ملی جلی کیفت زدہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں، فاخرہ صاحبہ بھی فخریہ انداز میں چبوترے پر مزید پھیل گئیں –
اب انیسہ خالہ سب جان چکی تھیں، انیسہ خالہ کے حوصلے بلند تھے،ایک بار پوری ہمت جمع کی، گلا صاف کیا، بنسبت اپنے لہجے کے تیز آواز میں بولیں، فاخرہ باجی! یہ تو دین کی پڑھائی ہے، مولانا اپنے سامنے کے ہی ہیں، سالوں سے محلے بھر کی بچیاں پڑھ رہی ہیں، گھنٹے بھر کو جاتی ہیں پڑھ کر واپس آ جاتی ہیں ، کتنی لڑکیاں ہیں جو اپنے دین سے پھر رہی ہیں، غیروں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہی تو ہے، کاش ہم جس طرح ہندی، انگریزی پڑھاتے ہیں ویسے ہی اردو، عربی پڑھائیں تو اس قدر حالات خراب نہ ہوں….
بات کہنے کی نہیں لیکن آپ کو ہماری بچی تو بڑی لگ رہی ہے جو ابھی ٹھیک سے سب کچھ جانتی بھی نہ ہوگی، لیکن آپ کی بچی جو 20 سال سے اوپر کی ہے اور اکیلی شہر میں رہتی ہے، پھر شہروں اور کالجوں کے حال کس سے چھپے ہیں، کچھ بھی کرے کون روکنے ٹوکنے والا ہے؟ ابھی کل ہی نیوز دیکھی غازی آباد کے دو کیفوں میں درجنوں لڑکیاں پکڑی گئیں، بہت سی تو حجاب کی آڑ میں یہ کر رہی تھیں، گھر سے پڑھنے کا بہانہ بنا کر جاتیں اور ان سینٹروں میں رنگ ریلیاں مناتی پھرتی تھیں…….. پولیس نے گرفتار کر لیا ہے….. یہ تو شہر کا حال ہے جو بچے، بچیاں باہر رہتے ہوں ان کے بارے میں کیا کہا جائے….. وہاں نہ والدین کا ڈر نہ محلے، پڑوس والوں کا خوف، جہاں بچوں کو خوف ہوتا ہے وہاں تو بچے یہ غلط حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جہا خوف نام کی چیز ہی نہ ہو وہاں کا کیا حال ہوگا اللہ ہی جانے – اس پر آپ اور یہ سبھی کیوں کچھ نہیں کہتیں؟ ساری محفل پر سناٹا چھا گیا، گویا کسی کے منہ میں زبان نہ ہو، حقیقت سب جان تے ہیں،لیکن کہنا نہیں چاہتے، اس خاموشی کو دیکھتے ہوئے انیسہ خالہ ایک بار گویا ہوئیں یہ سب "شیطانی چال” ہے –
شیطانی چال اور مسلمان
فاخرہ باجی! در اصل یہ شیطانی چال ہے ہمارے بچوں کو دین سے دور کرنے والوں کی، وہ نہیں چاہتے کہ ہماری بچیاں دین پڑھیں، کیوں کہ دین پڑھیں گی تو ماں باپ کی عظمت کا خیال ہوگا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے أقوال پر عمل ہوگا، غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات نہ ہوں گے، اپنے عقیدے کی پختگی ہوگی، بھلا آپ سب یہ بتائیں کہ کیا ہماری بچیاں اسکول نہیں جاتیں؟ سب بیک زبان بولیں بالکل جاتی ہیں، انیسہ خالہ نے دم بھر کا سانس لیا اور پھر گویا ہوئیں، اگر ہماری بچیاں گریجویشن تک پڑھیں تو 21 سال کی عمر ہوجاتی ہے، پھر کالج مسلم نہیں، استاد مسلم نہیں، اکثر طلبہ مسلم نہیں، جو مسلم وہ بھی غلط حرکات کے عادی، الا ماشاء اللہ …..
اب اگر ہم یہ سب دنیا کے نام پر برداشت کر سکتے ہیں تو کیا دین کے نام پر برداشت نہیں کر سکتے؟ مدرسے جانے میں یہی خوف ہے کہ کہیں کچھ اونچ نیچ نہ ہوجائے، تو کیا کالج میں فرشتے پڑھتے پڑھاتے ہیں جو وہاں اونچ نیچ نہ ہوگی ! خدا نہ کرے ایسا ہو، لیکن یہاں بگڑی جیسا کہ آپ کو خوف ہے تو کم از کم مسلمان تو رہے گی، لیکن کالج میں یہ ضروری تو نہیں، وہاں غیر مسلم کے ساتھ بھی اونچ نیچ ہو سکتی ہے(خدا نہ کرے ایسا کسی مسلم بچی کے ساتھ ہو) اگر ایسا کچھ ہوا تو دین اور دنیا دونوں گئی، پھر کسے نہیں معلوم کہ آج مسلم بچیوں کو ٹارگیٹ کرکے یہ سارے کام کیے جارہے ہیں، مطلب ختم، مار دیا، چھوڑ دیا، اب بتائیں کیا ہوگا؟ –
اگر کالج میں بگڑنے کے چانس 80 فی صد ہیں تو مدرسے میں 8 فی صد بھی نہیں، کیوں کہ یہاں ایک آدمی ہے اور وہاں ایک ہزار (1000) اگر بچیاں دین پڑھیں گی تو انھیں اپنے مسائل جیسے نکاح، طلاق، پردہ، تعدد ازواج، جنت، دوزخ، جزا و سزا، حلال حرام، روز مرہ کے مسائل جیسے پاکی ناپاکی، نماز روزہ، حج و زکات ،صدقات و خیرات کے علاوہ تہذیب و تمدن بھی آئے گا، یہ کون سی بات ہوئی کہ دنیا کی پڑھائی کے لیے ہماری بچی دہلی، ممبئی، جے پور، چنئ، مدراس بل کہ غیر ملک بھی چلی جائے تو فخر کی بات ہو اور وہ ابھی تک بڑی ہی نہ ہوئی ہو، جب کہ دین پڑھنے کی بات آئے تو دس بارہ سال میں ہی اپنے محلے، اپنی مسجد میں بڑی لگنے لگے؟ –
سوچ بدل نے کی ضرورت ہے
ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا تبھی مسلم معاشرہ درست ہوگا ورنہ نام کے مسلمان بچے بچیاں ایسی بے راہ روی کے شکار ہوتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر یہود بھی شرما جائیں – اب جو انیسہ خالہ خاموش ہوئیں اور سوالیہ نظروں سے اہل محفل کو دیکھا تو بات سب کو سمجھ آ چکی تھی، کوئی بھی فاخرہ باجی کی طرف فخر بھری نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا، پروفیسر صاحب اپنی فاخرہ کی یہ دھلائی دیکھ کر کھڑکی بند کر چکے تھے، بات تو فاخرہ صاحبہ کو بھی سمجھ آگئی تھی لیکن وہ یہ کہتے ہوئے اٹھیں کہ ہم تو آپ کو اپنا سمجھ کر آپ کے بھلے کے لیے ہی کہہ رہے تھے، پھر آپ کی مرضی،انیسہ خالہ کچھ کہتیں اس قبل ہی ذکیہ فاخرہ کے دروازوں کے بند ہونے کی آواز نے سب کو ششدر کر کے رکھ دیا –
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی سوچ بدل نے اور سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین –
عرض : ہماری معلمات جہاں رہیں یا شادی ہوکر جس علاقے میں پہنچیں انھیں چاہیے کہ وہاں وہ بچیوں پر خاص توجہ دیں، خوب محنت سے پڑھائیں، انھیں درپیش مسائل، اغیار کی عیاریاں اور حالات حاضرہ سے ضرور باخبر رکھیں –
نوٹ : ہمارے لوگوں کو بستی بستی علما کی طرح خواتین معلمات کو بھی رکھنا چاہیے تاکہ بچیوں کی دینی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ماں بہنوں تک دین کی پہنچ آسان ہو جائے، یہ ایک نئی شروعات ضرور ہوگی لیکن نہایت مفید ہو سکتی ہے –
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
10 /10/2024
6 /4/1446