یوم آزادی و یوم جمہوریہ

آج بھی مہرے لہو سے ہے چمن کی آبرو

ہمارا وطن عزیز کئی جہت سے مختلف کمال وخوبی کا مالک ہے،یہاں کی بادصبا، سر سبز و شاداب کھیت، صبح سویرے چہچہاتی اور کانوں میں رس گھولتی چڑیوں کی صدا، سمندر کی موجیں،نہر کی لا محدود آب روا، گلستاں کے باغ و بہار، پھولوں کی چٹک و مہک، دلکش نشیب و فراز،صبح کی کرن، رات کا جگنو،غرض کے اس طرح کی بہت سی خوبیوں کے باعث ہمارا ملک عزیز دیگر ممالک سے منفرد اور اعلی ہے۔ان سب سے بڑھ کر سب سے بڑی جو خوبی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا پہلا انسان پہلے نبی پہلی دفعہ آسمان دنیا سے اس خاک دان گیتی پر جب تشریف لائے تو یہ خوش بختی اور سرفرازی کسی اور کو نصیب نہیں بلکہ سرزمین ہند کو حاصل ہے۔رفتہ رفتہ دن گزرتے گئے حالات میں تبدیلی آتی گئی وقت نے کروٹ لیا اور ہمارے ملک کا سویا ہوا مقدر جاگ اٹھا یہاں کی مالی ترقی اتنی بڑھ گئی کہ پوری دنیا سونے کی چڑیا تسلیم کرنے پر مجبور و منظور ہو گئی۔مگر ہمارے ملک کی حرماں نصیبی یہ ہوئی کہ جب انگریزوں نے دیکھا کہ ہندوستان دن بدن کامیابی کے مینارہ کو چھوتا جا رہا ہے اور ہر میدان میں اپنی ترقی کا لوہا منوا رہا ہے تواپنی چابک دستی اور بد نظری کے ساتھ یہاں کا قابض و حاکم ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد یہاں ہر سو اپنا پاؤں پھیلانا شروع کر دیا اور اپنی دوغلا پالیسی کی بیج بونے لگا۔یہاں کی خوشگوار فضا میں خوف و حراس کا سما قائم کر دیا۔یہاں کے بھولے بھالے باشندوں پر ظلم و جبر کے شعلے برسانا شروع کردیا،ہندو مسلم یکجہتی ماحول کو پراگندہ کر دیا،جنگ و جدال اور خونریزی پر لوگوں کو امادہ کر دیا،گنگا جمنا تہذیب و ثقافت کو مسمار کر دیا،پورے ملک میں نفرت و عداوت کی بیج بو دی گئی،کمزور و ناتواں کے دست و پا میں اسیری اور غلامی کی زنجیر باندھ دی گئی۔جب اس کی بربریت اور جفا کشی حد سے بڑھنے لگی اور صبر و تحمل کی رسی ہاتھ سے چھوٹنے لگی نیز لوگوں کا جینا دو بھر ہو گیا، تو سب کے سب ایک ساتھ سر جوڑ کر پورے عزم و استقلال کے ساتھ آزادی ہند کا پرچم بلند کیا۔اس جنگ آزادی میں ہر خاص و عام مخالفین کے خلاف کمر بستہ ہو کر جنگ کے لیے نبرد آزما ہو گئے۔اس جنگ آزادی میں قوم مسلم کے جن جیال سرفروشوں نے برطانوی تسلط کے خلاف اپنی جاں فشانی و جاں نثاری کا ثبوت پیش کیا، اور اپنے لہو کی سرخی سے اس چمن کو آباد کیا، اگر ان کی قربانیوں سے چشم پوشی اور لاعلمی کا مظاہرہ کیا جائے، تو میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ آزادی کے ساتھ نا انصافی سے کام لیا گیا اور حقیقت کے ساتھ سوتیلا پن کا رشتہ قائم کیا گیا ہے۔آج اس جشن آزادی کے سنہرے موقع پر ان جانباز اور بے باک قائد کی قربانیوں کو سرسری طورپر چند باتیں سپرد قرطاس کر رہا ہوں۔
بہادر شاہ ظفر : سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر ایک سچے محب وطن تھے،ان کا دل ہندوستانی باشندوں کے لیے ہمیشہ درد مند اور فکر مند رہا،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جمنا کے کنارے بسنے والے غریب و مفلس لوگوں کو بلا ناغہ کھانا بھجوایا کرتے تھے،ہمیشہ ان کی حال پرسی اور خبرگیری کیا کرتے تھے۔وطن دوستی کا یہ عالم ہے کہ ان کے ہاتھ سے آخری وقت میں سب کچھ چھن گیا ان کے بیٹے اور پوتے کو شہید کر کے سر بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا مگر ان کے حب الوطنی میں بال برابر بھی فرق نہ آیا۔ان کے حوصلہ و ہمت کو کوئی بھی پست نہ کر سکا۔بڑے شیر دل اور پرعزم ہو کر انگریزوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا،ہر محاذ پر مخالفین کے سامنے آپنا سینہ سپر کیے رہا،مئی 1857 میں بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں تقریبا ساڑھے چار ماہ جنگ چھڑی رہی بالاخر بہادر شاہ ظفر کو ناکامی اور شکست ہاتھ لگی،21 ستمبر کو بہادر شاہ ظفر قید و بند کر دیے گئے،اپ کے اہل و عیال کو موت کے حوالے کر دیا گیا اور شہر بدر کر کے انگون بھیج دیا گیا، وہیں نومبر 1862 میں آپ کا انتقال ہو گیا۔
*شیر ہند سلطان ٹیپو: سلطان ٹیپو ایک بڑے ہی اپنے وطن سے محبت کرنے والے اور اپنے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے خیر اندیش حکمران تھا،1782 میں حیدر علی کے انتقال کے بعد جنگ کا باغ و ڈور سلطان ٹیپو کے سپرد کیا گیا۔سلطان ٹیپو ملک کی تحفظ و بقا کے لیے ہمیشہ فکر مند اور سرگرداں رہے،انگریزوں کے خلاف احتجاج کو جاری رکھا اور یہاں سے مار بھگانے کے لیے اپنی زندگی کی آخری سانس تک نبرد آزما رہے۔سلطان ٹیپو اپنے دور اندیشی اور حکمت و دانائی سے چھوٹی چھوٹی سلطنتوں (کشمیر، جودھ پور، جی پور اور نیپال وغیرہ) کے ہندو راجاؤں کے پاس اپنا سفیر دعوت اتحاد دیکھ کر روانہ کیا اور انگریزوں کی ناپاک چال اور پلید عزائم سے متنبہ بھی کیا۔سوئے اتفاق اپنی ہی قول٫٫شیر کے ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے،،پر عمل کرتے ہوئے آزادی کا پرچم بلند کرنے والا یہ مرد مجاہد چار مئی 1799 کو سرنگا پٹنم کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گئے۔
علامہ فیض احمد رسوا بدایونی: آپ ایک مصنف اور جنگ آزادی میں اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے سے کلیدی کردار نبھانے والے مرد جانباز تھے۔آپ نے اپنی انتھک کوششوں سے یہاں کے خابیدہ لوگوں کو بیدار کیا۔پس ماندہ اور افسردہ قوم کے درمیان ہندوستان کی بے لوث محبت کا چراغ روشن کیا۔انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے اور اپنے وطن عزیز کو غلامی کی زنجیر سے آزادی دلانے کے لیے ایک ساتھ یک جٹ ہونے کا پیغام دیا۔انقلاب 1857 میں آپ اپنے کچھ ہمراہ کے ساتھ سر زمین دہلی پہنچے اور یہاں جاری جنگ میں فتح و نصرت کی نیت سے شامل جنگ ہوئے۔چند دنوں تک اس جنگ میں پیش کر رہے مگر شکست خردہ ہو کر دہلی سے واپس ہو گئے پھر آپ لکھنو کی جنگ میں مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کے ساتھ شانہ بشانہ ہو کر انگریزوں سے برسر پیکار رہے۔مولانا مدراسی کے ساتھ شاہجہاں پور گئے اور جب مولانا مدراسی نے شاہجہاں پور میں اپنی حکومت قائم کی تو ان کی وزارت میں شامل ہوئے مولانا فیض احمد بدایونی کے بارے میں معروف و مشہور یہ ہے کہ آپ اپنا رخت سفر باندھ کر نیپال کی جانب ہجرت کر گئے۔
علامہ فضل حق خیرآبادی: آپ تحریک آزادی کے محرک اول ہیں،جب بھی آزادی ہند کی بات گردانی جاتی ہے تو آپ کا نام بغیر غور و خوض کے حاشیہ ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے۔اس ہندوستان کو انگریزوں کی چابک دستی اور غلامی کی اندھیری کوٹھری سے آزادی دلانے میں آپ کا کردار قابل تقلید اور لائق ستائش ہے۔آپ کی شجاعت و بہادر کے سبب تاریخ آزادی ہرا بھرا اور روشن و تابناک ہے۔آپ نے تحریک آزادی میں جس قدر ہمت وجرات کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔غیر ملکی غاصبوں کے خلاف ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے کی تائید و حمایت کی،دہلی کے متعدد جلسوں میں یہ پیغام نشر کرتے رہے ہیں کہ وطن کی حفاظت اور اس کی آزادی ہمارا ملکی، ملی اور سماجی آئین ہے۔ہمیں ہر حال میں سر پر کفن باندھ کر اپنے ملک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانا ہے۔آپ نے دہلی کی جامع مسجد میں مقتدر علماء و مشائخ کے سامنے فتوی جہاد پیش کیا،موجود علمائے کرام نے اس فتوے پر دستخط و مہر لگا کر کے منظر عام کر دیا۔اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں ہر طرف عام شورش بڑھ گئی اور ہر عوام و خاص اس آزادی میں حصہ لینے کے مشتاق ہو گئے۔آپ نے اپنی زندگی کی آخری ہچکی تک ملک کی تحفظ و بقا اور اس کے تقدس کو بحال کرنے کے لیے جو قربانی آپ نے پیش کی اس کے سامنے پوری دنیا سر خم تسلیم ہے۔بصد حسرت و یاس وہ گھڑی آہی گئی جہاں آپ کفن آزادی اوڑھ کر اس دار فانی کو چھوڑ کر سپرد خاک ہوئے۔
مولانا سید کفایت علی کافی: سید کفایت علی کافی جنگ ازادی میں ایک سچے سپاہی اور مجاہد بن کر اترے۔روز بروز آپ کو آزادی غم ستاتا جا رہا تھا۔برطانوی تسلط لوگو پر ظلم و جبر کے پہاڑ کھڑا کر دیا تھا، اس کی جفا کشی اور بربریت کے سامنے لوگ بے یار و مددگار ہو کر موت کو گلے لگا رہے تھے۔حالات دیگر گو ہو گئے تھے۔مولانا سید کفایت علی کافی حالات کے پیش نظر میدان کارزار میں اترے اور مخالفین کے سامنے ہمیشہ اپنا سینہ سپر کیے رہے۔مراد آباد میں چلنے والی تحریک حریت کے قائدین میں مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔مراد آباد میں آپ نے فتوی جہاد جاری کیا اور اس کی نقل متعدد مقامات پر ارسال بھی کیا۔آنولہ کی تحریک آزادی میں اپنے جسمانی وجود کے ساتھ موجود رہے۔بالاخر 30 اپریل کو مولانا صاحب کی گرفتاری کے بعد آپ کے خلاف مقدمہ شروع کیااور اپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی،آپ کو مراد آباد جیل کے سامنے بر سرعام پھانسی دی گئی اور وہیں کی مٹی کو اپنا آخری آرام گاہ بنا لیا۔
مفتی عنایت احمد کاکوروی: مفتی عنایت احمد کاکوروی جنگ آزادی کے ایک اہم قد آور ذات اور بے باک قائد تھے۔انگریزوں کے سامنے آپ نے اپنی ہمت و ہیبت کا وہ جوہر دکھلایا ہے کہ گویا مثل کوہ ہمالہ تھے۔1857 کے ماہ مئی میں ناگہانی انقلاب برپا ہوا تو آپ ان میں بحیثیت رہبر و معاون سرگرم ہوئے،آپ نے ملک کی آزادی کی خاطر چار سال ایام اسیری کی زندگی بسر کی۔اپ پر تشددوں و صعوبتوں کا آسمان توڑا گیا۔جب جزیرہ انڈمان سے رہائی ملی تو آپ کانپور کو اپنی دینی و ملی اور سماجی خدمت کا مسکن بنا لیا۔کچھ عرصہ بعد آپ بغرض حج و زیارت حرمین شریفین کا ارادہ کیا آپ کو امیر الحجاج کا عہدہ دیا گیا، درمیانی سفر سخت چٹان سے جہاز جا لگا اور اسی ناگہانی حادثہ میں آپ کا انتقال پر ملال ہو گیا۔
ان سب کے علاوہ آزادی ہند کی خاطر ہمارے 22 ہزار مقتدر علمائے کرام اور پانچ لاکھ مسلمانوں نے پھانسی کے پھندے کو راضی بالرضا گلے لگایا۔آج یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ذاتی تعصب و عناد کی بنیاد پر ہمارے ہزاروں شہیدوں کے پیش بہا خون کو صفحہ آزادی سے مٹانے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔ہماری اصل تاریخ میں رکھنا ڈالنے کی سازش رچ رہے ہیں،ہر موقع و محل پر بزرگوں کی قربانیوں کو ناآشنائی کا شکار بنا رہے ہیں۔مگر یہ ایک مسلم الثبوت حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی ہمارے بزرگوں ہی کے دم قدم سے متصور ہے اور صبح قیامت تک ان کی اس جانفشانی اور بے لوث قربانیوں کو زندہ وجاوید رکھا جائے گا۔

از قلم: محمد آفتاب عالم مصباحی
سیتامڑھی،استاذ دار العلوم فیض عام اناؤ

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے