یوم آزادی و یوم جمہوریہ

آزادی اور مسلمانان ہند


از: مفتی منظور ضیائی


ہندوستان تیوہاروں کا دیش ہے ، کوئی مہینہ ایسا نہیں جاتا جب کسی طبقے کسی فرقے کسی علاقے یا کسی مخصوص زبان بولنے والوں کا تیوہار نہ ہوتا ہو۔ عید ، بقرعید ، محرم ، ہولی ، دیوالی ، کرسمس، ایسٹر مذہبی تیوہار ہیں صرف دو تیوہار ایسے ہیں جنہیں قومی تیوہار کہاجاسکتا ہے ۔ ایک یوم آزادی ، دوسرا یوم جمہوریہ ،جس کو سارے ہندوستانی زبان مسلک مذہب علاقہ اور ساری حد بندیوں ماورا ہوکر مناتے ہیں ۔ ایک قابل غور بات یہ ہے کہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر وہ جوش و خروش نہیں دکھائی دیتا جو مذہبی تیوہاروں کا خاصا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادی اور جمہوریت کا جو خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا وہ سب کچھ رسم اور ادائیگی بھر رہ گئی ہے ، حقیقی معنوں میں نہ کہیں آزادی ہے اور نہ جمہوریت ، نہ ملک کو اس مقام اور بلندی تک پہنچایا جاسکا ہے جس کا خواب ہمارے اکابرین نے دیکھا تھا لیکن بہت زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، آزادی اور جمہوریت کا سفر ملا جل رہا ہے ۔ہندوستان نے مختلف شعبوں میں بے پناہ ترقی بھی کی ہے اور عالمی برادری میں اپنی شناخت بھی بنائی ہے لیکن کچھ ایسا بھی ہے جو ہمیں آگے چل کر کرنا ہے۔ ۱۵ اگست اسی عہد کی تجدید کا دن ہے آج ہمارا موضوع ہے ’آزادی اور مسلمانان ہند‘ ۔ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آزادی کی لڑائی میں مسلمانوں نے جتنا خون بہایا دیگر برادران وطن نے شاید اتنا پسینہ بھی بہایا۔کانگریس جو ملک کی آزادی کا سارا کریڈٹ لیتی ہے آزادی کے بعد تقریبا نصف صدی تک پورے ملک پر حکمرانی کی ہے۔ یہ جنگ آزادی کی لڑائی لڑنے والی پارٹی نہیں تھی اس پارٹی کا بانی ایک انگریز تھا اور پارٹی کی حیثیت انگریزوں کے دوستوں کو ایک کلب سے زیادہ کچھ نہیں تھی ، کانگریس اس وقت جنگ آزادی کی لڑائی لڑنے والی پارٹی بنی جب مسلمان اس میں شامل ہوئے ڈ جذبہ حریت کا سب سے زیادہ مظاہرہ مسلمانوں کی طرف سے کیاگیا ۔ ہندووں اور مسلمانوں سمیت سارے اقوام کی بے شمار قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں آزادی ملی ہے لیکن آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم کا المیہ بھی ہمیں اپنی ماضی کی ناکامی و نادانی کی یاد دلاتا ہے۔
بہرحال ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریبا ۷۵ سال ہورہے ہیں المیہ یہ ہے کہ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مسلمان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی اور آزادی کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں جیلوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کاتناسب ان کی آبادی سے بہت کم ہے۔ جب تک ہندوستان میں ہر طبقے ہر مذہب ہر علاقے اور ہر زبان کے لوگوں کو آزادی کے ثمرات سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور حقدار کو اس کا جائز حق نہیں ملے گا اس وقت تک آزادی کا تصور ادھورا رہے گا۔ آج ملک کے طول و عرض پرایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ کہیں سورش ہے ،کہیں انتہا پسندی ،کہیں دہشت گردی ،کہیں فرقہ واریت سر اٹھارہی ہے۔ ہندوستان کی کروڑوں کی آبادی آج بھی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے کروڑوں کی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جن کو زندہ رہنے کی بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہے۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کوپینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہے یہ وہ ناکامیاں ہیں جن کا ہمیں جشن آزادی مناتے وقت جائزہ لینا ہوگا اور یہ سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام اس جشن آزادی اور اس جشن جمہوریہ میں اس قدر جوش و خروش سے حصہ نہیں لیتے جس جوش و خروش سے وہ اپنے مذہبی تیوہار مناتے ہیں ۔اب ہم آتے ہیں ایک بار پھر مسلمانوں کی طرف زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کے ساتھ بھرپور زیادتیاں اور ناانصافی ہوئی ہے اور اس ناانصافی کے ذمہ دار فرقہ پرست نہیں سیکولرازم کے وہ نام نہاد علم بردار ہیں جنہوں نے پوری بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ان کے ووٹوں پر قبضہ جمائے رکھا اور بدلے میں انہیں صرف مایوسی اور محرومی کے سوا کچھ نہیں دیا اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم یوم آزادی کے موقع پر اس کا ماتم نہیں کررہے ہوتے۔
بہرحال آج یوم آزادی ہے ، خوشی منانے کا دن ہے ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ ہر طرح کی عصبیت سے بالا تر ہوکر دھوم دھام کے ساتھ یہ تیوہار منائیں اور گزشتہ سال یوم آزادی ہم سب نے کورونا کے سائے میں منایا تھا بدقسمتی سے اس سال بھی نہ صرف کورونا کا خطرہ ختم نہیں ہوا بلکہ یہ موذی مرض کہیں زیادہ خونخوار بن کر ہمیں دہشت زدہ کیے ہوئےہے اس لیے ۱۵ اگست کی تقریبات مناتے وقت کورونا کی ایس او پیز کا خصوصی خیال رکھیں ماسک سینی ٹائزر اور سماجی دوری کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ خوشی کی یہ تقریب کہیں کورونا پھیلانے کا سبب نہ بن جائے۔ آئیے اس موقع پر ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں ملنے والی اس آزادی کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دیں گے فرقہ وارانہ ہم آہنگی امن اور خیر سگالی کو ہر قیمت پر برقرار رکھیں گے غربت جہالت انتہا پسندی دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف مل جل کر لڑائی لڑیں گے اور ایک ایسے ہندوستان کی تشکیل کریں گے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔
ایک مرتبہ ہم پھر مسلمانوں کی طرف لوٹ کر آتے ہیں جب تک آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ یعنی مسلم اقلیت یا باالفاظ دیگر ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت آزادی کے فوائد اور ثمرات سے محروم رہے گی ملک کی حقیقی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ہم نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ گاندھی جی کی اپیل پر ہندوستانیوں نے انگلینڈ کے بنے ہوئے کپڑوں کی ہولی جلائی تھی اس وقت ہولی جلانے میں مسلمان پیش پیش تھے اس کے جواب میں دیگر براد ران وطن نے کپڑوں کی بڑی بڑی ملیں قائم کرلیں لیکن مسلمانوں کے حصے میں محرومی کے سوا کچھ نہیں آیا اس محرومی کے جولوگ ذمہ دار ہیں ان کے خلاف جمہوری انداز میں آر یا پار کی لڑائی لڑی جائے اور ایسے لوگوں کو آگے کیا جائے جو مسلمانوں کو ہندوستان کا باعزت شہری سمجھتے ہیں محض ووٹ بینک نہیں۔ مسلمانوں کو بھی اس موقع پر سیاسی غلامی کا طوق اپنے گلے سے توڑ پھینکنا ہوگا۔
(مضمون نگار بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر، صوفی کارواں کے روح رواں، آل انڈیا علم و ہنر فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں اور ملکی اور ملی معاملات پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والی ڈیبٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور بہترین نمائندگی کرتے ہیں)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے