سنگ میلوں نے دامن چھُڑا ہی لیا
اپنی ہستی کو خود سے ہٹا ہی لیا
منزلوں کے مرے سب نشاں کھو گئے
سمت و ساحل کا اب تو بتا بھی نہیں
میری منزل کا اب تو نشاں بھی نہیں
دل میں منزل کی حسرت ہے زندہ ابھی
آرزو منزلوں کی جواں ہے ابھی
جو تمنا ہے برسوں سے باقی رہی
سنگ میلوں نے آنکھیں چرا لی مگر
خواب آنکھوں سے میرے چرا نا سکے
کشمکش میں مری زندگی رہ گئی
اور منزل کی وہ تشنگی رہ گئی
دل میں الجھن لیے ایک امید پر
سمت منزل کا مجھ کو پتا اب ملے
میری کھوئی ہوئی سی وفا اب ملے
سب کو ملتا ہے مجھکو خدا اب ملے
چار راہوں کے اب بھی اسی موڑ پر
حسرتوں کے سبھی حوصلے رہ گئے
منزلیں کھو گئی راستے رہ گئے
مے کدہ ہے وہیں سے کسی راہ پر
اور شوالہ کو جاتی ہی اک راہ بھی
راہ مڑتی ہے پھر مسجدیں بھی تو ہیں
ایک آتش کدہ چرچ بھی راہ پر
گُر دوارے کی اونچی عمارت بھی ہے
سارے راہوں میں لوگوں کی اک بھیڑ ہے
ساری راہوں میں منزل کی حسرت لیے
لوگ اپنے جنوں میں چلے جاتے ہیں
کوئی اس سمت میں کوئی اس سمت میں
دل کے دامن میں اپنی محبت لیے
اپنے ماتھے پہ اپنی عقیدت لیے
جو بھی ڈھونڈا ہے پایا ہے معبود کو
ہم نے مانا کہ راہیں جدا ہیں مگر
ایک منزل یہاں ایک منزل یہاں
جس نے ڈھونڈا جہاں راستہ مل گیا
اک خدا مل گیا اک خدا مل گیا
سارے رنگوں کے غنچے ہیں گلیاں بھی ہیں
پھول گلشن میں صدیوں سے آباد ہیں
اس جہاں میں انوکھا یہ گلدان ہے
ایک جہتی ہی اپنی تو پہچان ہے
سارے عالم میں اپنی یہی شان ہے
رشک سے دیکھتی ہے یہ دنیا جسے
اپنا بھارت ہے یہ اپنا بھارت ہے یہ
نتیجہ فکر: شہاب حمزہ
8340249807