اے خدا دیکھ تو بیکسی عید کی
کس قدر مضمحل ہے گھڑی عید کی
ہر برس جو ہوا کرتی تھی عید کی
اب کے غائب ہے وہ دلکشی عید کی
دھن میں ہو آدمی آدمی عید کی
کاش کہ رقصاں ہو زندگی عید کی
اے خدا اس تفکر سے دیدے نجات
چھین لی جس نے ہم سے خوشی عید کی
چاند سورج نے غنچوں نے اور پھولوں نے
سب نے ہی تہنیت ہم کو دی عید کی
کس قدر سونی سونی ہے آمد خدا
تیری انعام میں دی ہوئی عید کی
جس کا شدت سے کرتے تھے ہم انتظار
آ گئی آ گئی و ہ گھڑ ی عید کی
دل سے دل بھی ملیں اِن گَلوں کی طرح
کا ش کہ لاج رکھ لیں سبھی عید کی
جب و ہ آ کر ہمار ے گلے لگ گئے
ہو گئی پھر خوشی دو گنی عید کی
دشمنوں کو بھی بڑھ کر لگائے گلے
کہ روایت ہے بس اک یہی عید کی
میرے گھر آج تشریف لائے ہیں وہ
بڑھ گئی اور بھی دلکشی عید کی
جیسی اب کے ہے کی مفلسی نے مری
دیکھی حالت نہ ایسی کبھی عید کی
کوئی محروم رہنے نہ پائے ’’ذکی‘‘
آؤ آپس میں بانٹیں خوشی عید کی
ازقلم: ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج، بارہ بنکی،یوپی،بھارت