کالم گوشہ خواتین

افسانہ: کھوکھلہ معاشرہ

افسانہ نگار: گل گلشن، ممبئی

لیپ ٹاپ سامنے ٹیبل پر کھلا ہوا تھا۔پاس ہی چشمہ رکھا ہوا تھا۔قہوہ کپ میں رکھا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔لیکن میری نذر اپنی گود میں رکھی ڈائری پر ہی تھی۔میں سمجھ نہیں پا رہا کہ یہ ڈائری زیادہ تنہا ہے یا میں خود۔سوچوں کا طوفان تھا اور سرا کوئی مل نہیں رہا تھا۔

اسی ڈائری میں میں نے زندگی کے چھوٹے بڑے حادثات اور واقعات بیان کئے تھے۔خاص کر وہ واقعات جب اس سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔بچپن سے جوانی، جوانی سے محبت، محبت سے عشق تک کی داستان رقم ہے ۔لیکن جدائی والا درد اس ڈائری میں آج تک بیان نہ کر سکا۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قلم تلوار بن چکا ہے جو کاغذ کے سینے کو مسلسل زخمی کر رہا ہے۔ لیکن یہی درد کی داستانیں محبت کی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ اسے پہلی نذر دیکھتے ہی دل نے کہا کہ یہی ہے جس کے ساتھ ساری زندگی گزار سکتا ہوں۔وہ با حیا اور شریف لڑکی تھی۔ہم نے نہ کبھی محبت کے نام پر کوئی غلط حرکت کی اور نہ ہی بےجا ملاقاتیں کیں۔بس محبت کی صرف محبت۔ لیکن تاریخ گواہ ہے ظالم زمانہ محبت سے نفرت کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال ہی لیتا ہے۔ہمارے ساتھ بھی ہوا۔اس کے والد نے صرف اس لئے رشتے سے انکار کر دیا کہ میں ان کی برادری کا نہیں تھا۔کیا یہ کوئی جائز وجہ ہے دو لوگوں کو الگ کرنے کی یا یہ ذات برادری قانون کا حصّہ ہیں۔چلیں دکھ تب بھی نہیں ہوتا اگر وہ خوش ہوتی۔لیکن دقیانوسی سوچ کا حامل معاشرہ فیصلے لیتے وقت یہ بھی نہیں سوچتا کہ ان کا فیصلہ کسی کی زندگی کو عذاب بھی بنا سکتا ہے۔اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ذات برادری کو اوپر رکھنے والے اس کے پریوار نے اس کی شادی ایک ایسے انسان سے کر دی۔جو پہلے ہی تین شادی کر چکا تھا اور یہی نہیں وہ نہایت ہی ظالم قسم کا آدمی تھا۔آج میں ڈائری میں کچھ نہیں لکھ پا رہا کیونکہ ہم ڈائری میں غم لکھتے ہیں یا خوشی لیکن اب اس ڈائری کو بتانے کے لئے کچھ باقی نہیں ہے کیونکہ یہ نہ غم ہے نہ خوشی ۔یہ تو شکایت ہیں ۔لیکن کس سے کی جایئں یہ شکایت۔ اس معاشرہ سے یا اس انسان سے جس نے یہ قانون بنایا کیونکہ میرے رب نے تو ایسا کوئی قانون نہیں بنایا۔آج حالات یہ ہیں کہ جسے میں پھولوں کی طرح سمبھال کر رکھنا چاہتا تھا۔اس کے اپنوں نے ہی کانٹوں کی چادریں اس کی راہوں میں بچھا دیں۔آج وہ ہوش و حواس سے بے گانہ ایک ہسپتال میں اپنی زندگی کے بچے ہوئے دن کاٹ رہی ہے اور میں زندہ ہوں۔مجھے کسی پل چین نہیں آتا۔میں اس بے کلی سے بچنے کے لئے اچھے برے جتن کرتا ہوں لیکن یہ درد بہلتا ہے نہ ٹلتا ہے۔شاید وہ وہاں اور میں یہاں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے