بہرائچ شریف: 10 فروری ہماری آواز(پریس ریلیز) 9 فروری کو مولانا عارف مصباحی صاحب، ممبئی کے ایک میسیج کے ذریعے خبر موصول ہوئ کہ بہرائچ شریف کے ایک گاؤں اچولیہ نون پوروہ میں وہابیوں نے سنی مسجد قادریہ کا نام بدل کر مسجد ابوبکر رکھ دیا اور قبضہ کر لیا، بانی تحریک حضرت قمر غنی عثمانی صاحب 3 روزہ تبلیغی دورہ پر 9 فروری کی صبح ہی لکھنؤ پہونچے تھے، اس معاملے کی اطلاع ملتے ہی حضرت نے تحریک کے رکن مولانا عزیز الرحمن صاحب فخر پور، بہرائچ کی نگرانی میں تحریک کا ایک وفد حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا، پھر وہاں کے ذمہ داران امیر احمد و صوفی سکندر صاحبان سے خود بانئ تحریک نے فون پر بات کی اور تفصیلات معلوم کیں، انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے لوگ بہت خوف زدہ ہیں پولیس کا بہت پریشر ہے، حضرت نے انہیں ہر ممکن تعاون کا اطمینان دلایا اور خود سنی سینٹرل وقف بورڈ، لکھنؤ جا کر اس مسجد کے معاملے میں تفصیلات معلوم کیں، تحریک فروغِ اسلام لکھنؤ کے صدر شعبہ سیاسی و قانونی امور ایڈووکیٹ محمد اکرام خان صاحب سے مشورہ کیا، حالات کی حساسيات کے پیش نظر حضرت نے لکھنؤ کی میٹنگز کینسل کر کے خود علاقے کے دورہ کا فیصلہ کیا.
10 فروری کو بعد فجر ہی بانئ تحریک ایک وفد لیکر اس گاؤں کے لۓ روانہ ہو گئے جس میں ایڈووکیٹ محمد اکرام خان، انجینئر سیف الملک، نعمان فہمی شامل تھے، تقریباً 10 بجے وفد اچولیہ گاؤں پہونچ گیا، گاؤں والوں سے ملاقات کی جو بہت ڈرے سہمے تھے، معلوم ہوا کہ مسجد کا امام محمد اکرام دو سال سے امامت کر رہا تھا اور انتظامات دیکھ رہا تھا اپنے کو سنی ظاہر کر رہا تھا، تعمیر مسجد میں گاؤں والوں کے علاوہ کوئی باہر کا شخص تعاون کر رہا تھا، جب مسجد تعمیر ہو گئ تو اس نے قادری مسجد کی جگہ مسجد ابو بکر کا پتھر لگوا دیا، اسلامی جھنڈا اتار کر پھینک دیا، سلام پڑھنے کی مخالفت کی جب کہ پہلے وہ خود سلام پڑھتا تھا، اچانک آئ تبدیلی سے گاؤں والے حیرت زدہ رہ گۓ، جب گاؤں والوں نے اس سے تبدیلی کی وجہ پوچھی تو اس نے سنی وقف بورڈ لکھنؤ کے ذریعے جاری کردہ کمیٹی کا سرٹیفکیٹ دکھایا اور کہا کہ میں نے کمیٹی بنا لی ہے اب میں جو چاہوں گا وہی ہوگا، اس نے پولیس میں کمپلینٹ بھی کر دی، دونوں فریق کو تھانہ بلایا گیا جہاں سنیوں نے دباؤ میں تحریری صلح کر لی، صلح نامہ کے مطابق نماز وہابی امام ہی پڑھاۓ گا ہاں سنی سلام پڑھ سکتے ہیں(یہ سب گاؤں والوں کی لا علمی اور کسی طرح کے سپورٹ نا ہونے کی وجہ سے ہوا) ، کمیٹی میں کل 8 لوگوں کے نام ہیں جن میں چھ اس وہابی امام کے گھر کے اور گاؤں کے دوسرے دو لوگوں کے نام بغیر ان کو اطلاع کے شامل ہیں، حضرت نے ان دونوں لوگوں تاج محمد اور امتیاز احمد کو بلا کر بیان لیا، جنہوں نے مسجد کی زمین دی تھی ان سے بھی بیان لیا پھر تینوں لوگوں کو قیصر گنج تحصیل لے جا کر ان کا بیان حلفی بنوایا، وہاں سے فارغ ہونے پر وفد تھانہ رانی گنج پہونچا جہاں ایس او شیام دیو چودھری سے تقریباً 3 گھنٹہ گفتگو ہوئی، مسٹر چودھری نے کہا کہ ان سب نے ہمیں سنی وہابی معاملہ ہی نہیں بتایا اور صلح نامہ لکھ دیا، اب ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ وقف بوڈ سے کمیٹی کینسل کرا کے آرڈر لے آئیں ہم اس کا پالن کرا دیں گے، یہ بتانے پر کہ وہابی گروپ گاؤں والوں کو دھمکا رہا ہے، ایس او نے کہا کہ اگر اب ایسا کوئ کرتا ہے آپ فوراً مجھے فون کیجئے.
وفد کے پہونچنے اور پولیس سے کھل کر بات کرنے سے گاؤں والوں میں نیا حوصلہ پیدا ہوا، بانئ تحریک نے گاؤں والوں سے کہا کہ *ہم حسینی ہیں ہمیں اگر جیل بھی جانا پڑے تو بھی مسجد کو وہابیوں سے آزاد کرانا ہے، تحریک فروغِ اسلام ہر طرح آپ کے ساتھ ہے، ہم وقف بورڈ میں کارروائی کر کے سنیوں کی کمیٹی بنائیں گے ان شا اللہ. ساتھ ہی حضرت نے کہا کہ کوئی بھی اس وہابی امام کے پیچھے نماز نا پڑھے، گاؤں والوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور شکریہ ادا کیا. دیر رات وفد لکھنؤ واپس پہونچا.
اللہ تعالیٰ بانئ تحریک و تمام اراکین کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور جلد سنیوں کو ان کی مسجد واپس ملے.
شعبہ نشر و اشاعت
تحریک فروغِ اسلام ،ہیڈ آفس، دہلی
9473962637