از قلم: بنت مفتی عبدالمالک مصباحی، جمشیدپور
❺ ـــ آپ – رحمة الله عليه – کے دست حق پرست پر لاکھوں افراد کیسے اسلام قبول کر لیے؟
اس کے جواب میں جہاں آپ کی دیگر بے شمار صفات حمیدہ موجود ہیں وہیں آپ کا حسین و بے نظیر خلق حسَن ہے کہ جس طرح آقاے کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہو کر تین سو تیرہ کی تعداد محض چند ہی برس میں لاکھوں سے تجاوز کر گئی اسی طرح نائب رسول یعنی خواجہ غریب نواز کے اخلاق کے حُسن نے لاکھوں کو اسیر بنا لیا کیوں کہ آپ کی طبیعت میں حلم و عفو کی درویشانہ صفات منتہائے کمال تک پہنچی ہوئی تھیں – اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ…….
آیک مرتبہ خواجہ معین الدین حسن چشتی رحمتہ اللہ بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی آیا اور آداب بجا لا کر ایک جانب بیٹھ گیا – عرض کی کہ حضرت بہت عرصہ سے آپ کی قدم بوسی کی تمنا تھی اللہ کا شکر ہے کہ یہ عظیم سعادت آج میسر ہوئی – اس بد باطن شخص نے جیسے یہ جملہ کہا حضرت نے اس کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور ذرا توقف کے بعد فرمایا : جس ارادہ سے آئے ہو اس کو پورا کرو، یہ سنتے ہی وہ شخص کانپنے لگا، خوف زدہ ہو کر زمین پر گر گیا اور بڑی عاجزی سے بولا کہ مجھ کو لالچ دے کر آپ کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، یہ کہ کر بغل سے چھری نکالی اور سامنے ڈال دی، پھر قدموں پر گر کر کہنے لگا کہ آپ مجھ کو اس کی سزا دیجیے، بلکہ آپ حکم دیجیے کہ مجھے مار ڈالا جائے – خواجہ غریب نواز – رحمة الله عليه – نے فرمایا : اے عزیز!! ہم لوگوں کی روش یہ ہے کہ جو ہمارے ساتھ برا کرے اس کے ساتھ بھی ہم نیکی سے پیش آتے ہیں تم نے تو میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ، یہ کہ کر اس کا سر اپنے قدم سے اٹھا لیا اور اس کے لیے دعائیں کیں : خداوند اس شخص کو نیک توفیق عطا فرما – دعا کرتے ہی اس کا دل بدل گیا اس نے حضرت کی ملازمت اختیار کر لی – دیندار آدمی بن گیا یہاں تک کہ پینتالیس (۴۵) بار حج کعبہ کی سعادت حاصل ہوئی اور اسی مقدس سر زمین میں روح پرواز ہوئی مکہ مکرمہ ہی میں پیوند خاک بھی ہوا – {سیر الاقطاب ،ص ١٣٣ و ١٣٤ و ترجمہ اردو تذکرہ خواجگان چشت، ص ١٣٩،مطبع نفیس اکیڈمی کراچی}
_یہ ایک واقعہ تو بس نمونہ تھا ورنہ آپ کا کردار حسن اخلاق کا خزینہ ہے جس کے بے شمار شواہد آج بھی موجود ہے –
❻ ـــ شاہ و گدا ذات خواجہ پر فریفتہ کیسے؟
کرامات غریب نواز میں یہ تو آپ نے خوب سنا ہوگا کہ آپ – رحمة الله عليه – سفر ہند میں سمر قند، بخارا، بغداد، نیشاپور، تبریز، اوش، اصفہان، سبزوار، خراسان، خرقان، استر آباد، بلخ اور غزنی وغیرہ سے ہوتے ہوئے دوران سفر ہی لاکھوں گمراہ کو راہ راست پر گامزن فرمایا اور بے شمار بت پرست، آتش پرست، یہودیوں اور عیسائیوں کو دامنِ اسلام میں آباد فرمایا اور انھیں میں سے کئی افراد اسی دم اپنے گھر بار، وطن و شہر سب کو خیر آباد کہہ کر دیوانہ وار شیخ غریب نواز – رحمة الله عليه – کے ہمراہ ہو گئے –
واقعی یہ آپ ہی کے جیسے اولیاء کا حصہ ہے کہ حدیث قدسی سے ثابت ہے "اللہ رب العزت جب کسی بندے کو اپنا محبوب بناتا ہے تو اہل سماء و أرض کے دلوں کو اس کی محبت سے سرشار فرما دیتا ہے” لیکن اسی کے ساتھ ساتھ روشن کردار اور کچھ دل آویز انداز بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ان کی طرف دیوانہ وار بھاگنے لگتے ہیں – کچھ ایسے ہی کردار خواجہ غریب نواز کے بھی تھے مثلاً :
آپ رحمۃ اللہ خلق خدا پر نہایت شفیق تھے، بہت ہی نرم دل اور متحمل مزاج، سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے ۔ اگر کبھی غصہ آتا تو صرف دینی غیرت و حمیت کی بنیاد پر آتا البتہ ذاتی طور پر اگر کوئی سخت بات کہہ بھی دیتا تو آپ برہم نہ ہوتے بلکہ اس وقت بھی حسن اخلاق اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ آپ نے اس کی نازبیا باتیں سنی ہی نہ ہوں۔ {حضرت خواجہ غریب نواز: حیات و خدمات، ص ٣٩}
یوں ہی اگر کوئی آپ کے ساتھ کتنی ہی بدسلوکی کیوں نہ کرے مگر کبھی آپ – رحمة الله عليه – اسے رسوا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ کے مرید و خلیفہ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی – رحمة الله عليه – اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں کئی برس تک خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر رہا لیکن کبھی آپ رحمه الله تعالی کی زبان اقدس سے کسی کا راز فاش ہوتے نہیں دیکھا، آپ رحمتہ اللہ علیہ کبھی کسی مسلمان کا بھید (راز) نہ کھولتے – {ایضاً}
اسی طرح آپ کے اندر وارفتہ و دیوانہ وار بنانے والی ایک اور بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ کو انسانیت سے بڑا پیار تھا بلا تفریق مذہب و ملت مظلوم کی امداد و حاجت روائی گویا آپ نے اپنے اوپر لازم کر لیا تھا مثال کے طور پر اس مظلوم مقتول کی حیات نو کے واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں :
ایک حاکم نے ایک شخص کو بے گناہ پھانسی کی سزا دے دی – مقتول کی ماں حضرت خواجہ کی خدمت میں آئی اس وقت حضرت وضو فرما رہے تھے
اس عورت نے آتے ہی گریہ وزاری شروع کردی کہ خدا کے لیے میری فریاد سن لیجیے – شہر کے حاکم نے ناحق میرے بیٹے کو پرچہ نویسوں کی ریپوٹ پر پھانسی دے دی ہے حضرت خواجہ نے متوجہ ہو کر اس مظلومہ کی فریاد کو غور سے سنا اور جب آپ کو یقین ہو گیا کہ واقعہ بالکل صحیح ہے تو آپ نے اپنا عصا ہاتھ میں لیا اور اپنے خدام و مریدین کے ساتھ روانہ ہو گئے – ہر شخص حیران و پریشان تھا کہ دیکھیے پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے حضرت خواجہ سیدھے مقتول کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک اس کی لاش کو دیکھتے رہے پھر اپنی عصا سے اس کی گردن کو چھو کر فرمایا: ” اے مظلوم! اگر تجھ کو بے قصور مارا گیا ہے تو اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا اور پھانسی کے تختے سے اتر جا” ۔ ان الفاظ کا زبان مبارک سے نکلنا تھا کہ مقتول زندہ و سلامت پھانسی کے تختے سے نیچے آ گیا جیسے حکم کا منتظر ہو اور فوراً حضرت کے قدموں پر گر گیا – {ص ١٣١و ١٣٢}
_پھر بھلا عوام و خواص اور اپنے و بے گانے اس منصف و مخلص پر فریفتہ کیوں کر نہ ہوتے!
جاری…….