از۔۔۔۔۔۔محمد کامل رضا مصباحی
موجودہ دور میں جرائم ایک عام معمول اور معاشرےکا جزو لا ینفک بن گیا ہے وہ جرائم خواہ اخلاقی ہوں یا جنسی، لوٹ مار ہو یا قتل، علاقائی ہو یا شہری، ملکی ہو یا بین الاقوامی، اس کی زد سے نہ انفرادی زندگی محفوظ ہے نہ اجتماعی ،آج پورے عالم میں جرائم اوربد اخلاقی کا تناسب بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہاہے،آج ہمارے معاشرے میں جرائم کی کثرت کا جو عالم ہے ، وہ بیان کا محتاج نہیں ہے ایسا لگتا ہے گویا پورا معاشرہ جرائم کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق جس معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم نہ رہے تو معاشرے میں عدل نا پیدہو جاتا ہے۔ جرائم کا پھیلاﺅ عام ہوجاتاہے۔ عوام بدحالی اور نا انصافی کاشکار ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں احساس اور ذمہ داری کا خیال نہیں رہتا۔ معاشرہ ذلت و رسوائی کی علامت بن جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانا مشکل ہوجاتی ہے۔ آج بڑھتے ہوئے جرائم کے نوجوان نسل پر جس قدر اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہ ایک ناقابل افسوس بات ہے۔
اسی جرائم کا ایک حصہ حالیہ دنوں اعظم نگر گاؤں پستیہ کٹیہار بہار کی ماہ نور نامی صنف نازک کے ساتھ دیکھنے کو ملا پہلے اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی پھر بہیمانہ قتل کے ذریعہ پورا ملک ہندوستان کو نربھیا کیس کی طرح ایک بار پھر شرمسار کیا گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق بہار کی یہ سولہ سالہ بیٹی ماہ نور میٹرک فرشٹ ڈیویزن سے پاس تھی اور اپنی مارکشیٹ وغیرہ کی فوٹو کاپی کرانے کے لئے 24 مئی منگل کی شام اپنے گھر سے نکلی تھی جب دیر رات تک واپس نہیں آئی تو اس کی تلاشی شروع ہوئی تلاش بسیار کے باوجود اس کا سراغ کہیں نہیں ملا تو لوگ ناامید ہوگئے دوسرے دن غریب باپ مجیب الرحمٰن نے متعلقہ تھانے میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروادی تاکہ پولیس بھی حرکت میں آ جائے۔ ادھر باپ اپنے غم گساروں کے ساتھ خود بھی اس کی تلاش میں لگا رہا دوسرے دن شام ہوتے ہوتے بری حالت میں ماہ نور کی لاش گاؤں میں ہی سرلاسی نام کا ایک آدمی کے گھر میں پڑی ہوئی ملی 16 سالہ ماہ نور کے جسم پر جگہ جگہ گہری چوٹوں کے نشانات، تازہ زخم اور گلے میں رسی کے پھندے کا گہرا نشان اس پر ڈھائے گئے مظالم کی کہانی سنا رہے تھے اس کی چاچی کا کہنا ہے کہ جب ماہ نور کا جسم دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ پہلے کئی انسانی بھیڑئیوں نے مل کر اس کے نرم و نازک جسم سے اپنی ہوس کی پیاس بجھاتے رہے پھر جب نشہ اترا اور پکڑے جانے کا خوف لاحق ہوا تو ماہ نور کے جسم کو دانت سے کانٹنے لگا جس کی گواہی دانتوں کے کٹے کئی نشانات دے رہی تھے۔ پھر ان درندہ صفت انسان کو خیال آیا کہ شاید یہ بھاگ جائے تو پہلے گھٹنے اور کمر کو توڑ دیا، اسی پر بس نہیں بلکہ گلا دبا کر اسے موت کی نیند ہی سلا دیا جب ماہ نور مر چکی تو اس کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر اسے چھت میں آویزاں کر دیا تاکہ لوگ یہ گمان کرے کہ اس کو مارا نہیں گیا ہے بلکہ وہ خودکشی کی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ چور چوری کے بعد اپنا نشان قدم چھوڑ جاتا ہے۔ ایسے ہی ان درندہ صفت انسان کے ساتھ ہوا کہ جس کا بدن ٹوٹا ہوا ہو وہ بھلا کیسے پھانسی کے پھندے میں لٹک سکتی ہے؟ خیر انسانیت کو شرمسار کرنے والا یہ کھیل کھلے آسمان کے نیچے سرلاسی کے مکان کی چھت پر کھیلاگیا اور خود اسکی بیوی ریکھا دیوی اور بیٹی نیتو دیوی ہی ماہ نور کو بہلا پھسلا کر منظم منصوبہ کے تحت اپنے گھر لے گئیں جو گرفتار بھی ہو گئیں ہیں۔
واضح رہے کہ اس واقعہ کو دبانے کے لیے پہلے مجرم اپنے مجرمانہ حرکت کو چھپانے کی حتی الامکان کوشش کرتا رہا جب ہرطرف سے ناکامی ملی تو فوراً اپنے بھائی جو ابھی مکھیا کے عہدہ پر فائز ہے اس کا سہارا لینے کی کوشش کرنے لگا۔ ادھر پوسٹ مارٹم کے لیے لاش کو کٹیہار بھیج دیا گیا لیکن مجرم کا بھائی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹروں سے غلط رپورٹ بنوا لیا کہ اس کو مارا نہیں گیا بلکہ وہ خودکشی کی ہے جب رپورٹ اور ماہ نور کے جسم کے نشانات میں تضاد لگا اور پولیس بھی ادھر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرنے لگی تو اس صورت حال کو دیکھ کر مقامی لوگ کافی برہم ہوگئے اور کالج موڑ سالماری میں لاش کو سامنے رکھ کر پولیس اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ کٹیہار اور سالماری کا راستہ کوئی ایک گھنٹہ سے زیادہ کا نہیں ہے لیکن مسلسل آٹھ گھنٹے گزرنے کے باوجود کٹیہار سے ایس پی اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جب نہیں آئے تو احتجاج کرنے والوں کا غصہ آپے سے باہرہو گیا اور ری پوسٹ مارٹم اور ایس پی کی نوکری سے سبکدوشی کی مانگ لوگ کرنے لگے۔ اخیر میں ڈی ایس پی آئے اور انھوں نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے لوگوں کو دلاسہ دیا کہ انصاف ضرور ملے گا۔ بارہ بجے کے قریب لاش کو دو بارہ بھاگلپور لے جایا گیا۔
اس واقعہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اتنی بڑی خبر کو مین اسٹریم میں کہیں جگہ نہیں ملی جب کہ بہار کا سونو جو ایک چھوٹا بچہ ہے اس کی قابلیت اور ذہانت کا اس قدر چرچا کیا جاتا ہے کہ اس کا انٹرویو اور گود لینے والوں کا ایک تانتا سا بندھ گیا جو ہنوز جاری ہے لیکن ماہ نور کا اجتماعی ریپ ہوا اس کے جسم کی ہڈیاں توڑ دی گئیں اس کے لب و رخسار کو رات بھر نوچا گیا پھر اسے بہیمانہ طریقے سے قتل بھی کر دیا گیا
لیکن میڈیا کے سروں پر جوں تک نہیں رینگی آخیر کیوں؟
اخیر میں بہار کی نتیش حکومت سے مطالبہ ہے کہ جن مجرمین کی شناخت ہو گئی ہے انہیں جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور عدالتی کاروائی کو تیزی کے ساتھ برؤے کار لاتے ہوئے انہیں پھانسی کے پھندے پر چڑھایا جائے تاکہ ماہ نور اور اس کے غریب ماں باپ کو انصاف مل سکے۔ اسی کے ساتھ خواتین اسلام سے ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو اپنے لئے نمونہ بنائیں اور اسلامی حدود میں رہ کر اپنی زندگی گزاریں اسی میں ان کی سلامتی ہے۔
(راقم: جرنلسٹ اور تجزیہ نگار ہیں)