ازقلم: ابومعاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
جامعہ نعمانیہ ویکوٹہ آندھرا پردیش
اس کار گاہ عالم میں آمد و رفت کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا، ہر آئے دن کوئی نہ کوئی ہمیں داغ مفارقت دے رہے ہیں، پہلے بھی ہورہا تھا اب بھی ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہوگا، لیکن ادھر سال بھر سے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اساطین علم وفضل کی تسبیح کے دھاگہ ٹوٹ گیا ہے اور ہر آئے دن ایک ایک کرکے دانہ بکھرتا جارہا ہے ابھی پچھلے دنوں سرزمین بہار کے مایہ ناز عالم دین حدیث رسول ﷺ کے بحر بیکراں حضرت مولانا ہارون رشید صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ(سابق شیخ الحدیث:مدرسہ نورالعلوم گٹھامن، پالن پور،گجرات) کے سانحہ وفات کا زخم تازہ ہی تھاکہ
کل گذشتہ شام 18/فروری , 2021/کی بات ہے کہ بعد نماز مغرب جب موبائل کے اسکرین پر نگاہ پڑی، ایک غم انگیز خبر پڑھنے کو ملا "امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ” کے قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی عبدالجلیل صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ اپنے رب جلیل کے حضور تشریف لے گئے: انا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه وادخله في فسيح جناتك، ويلهمه الصبر والسلوان
یوں تو ایک عالِم کا دنیا سے اٹھ جانا پورے عالَم کے لئے ایک زبردست حادثہ ہوتا ہے لیکن جب کسی ادارہ یا تنظیم کے کوئی ایسی شخصیت جو مرجع ہو ان کا اٹھ جانا اس ادارہ کے لئے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے، حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ اس وقت ملک کے تمام قضاۃ کے لئے مرجع تھے، اللہ تعالی امارت شرعیہ کو حضرت رح کا نعم البدل عطا فرمائے (آمین)
حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ بلند پایہ عالم دین تھے، افتاء وقضا کے کامیاب استاذ تھے، خاص طور سے کار قضا میں حضرت مولانا قاسم صاحب مظفر پوری رح کے بعد آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا، لفظ "قاضی” آپ کے نام کے ساتھ جز لاینفک بن چکا تھا۔
الحمدللہ!حضرت رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی شرف یابی حاصل ہے، آپ رح امارت شرعیہ کے قاضی ہونے کے ساتھ ساتھ امارت کے ادارہ "المعہد العالی الاسلامی” میں بھی درس دیا کرتے تھے، آپ رح کا پڑھانے کا انداز ہی کچھ الگ تھا، کتاب شروع کرانے سے پہلے ہفتہ دس دن نحو و صرف کے ابتدائی باتوں سے لے کر تمام اہم قواعد پر گفتگو کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ مجھے پتہ ہے کہ تم کو یہ گراں معلوم ہورہا ہے تم مفتی اور قاضی بننے آئے ہو اور میں تمہیں عربی اول کی باتیں بتا رہا ہوں،لیکن یاد رکھو! میں تمہارا وقت ضائع نہیں کررہا ہوں بلکہ اس سے تمہارے تمام قواعد مستحضر ہوجائیں گے، اور آئندہ عبارت خوانی میں نحوی و صرفی غلطیوں سے محفوظ رہوگے۔
یقیناً یہ طریقہ حضرت رح بہت نفع بخش طریقہ تھا، راقم السطور بھی اس پر عمل کررہا ہے۔
حضرت رح کے انتقال پر مشہور عالم دین حضرت مولانا بدرالحسن صاحب قاسمی دامت برکاتہم اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
قاضی عبد الجلیل صاحب قضا کا طویل عملی تجربہ رکھتے تھے، فقہ کی متداول کتابیں بھی انہوں نے دسیوں سال تک پڑھائی تھیں اس لئے ان کی شخصیت بڑی اہمیت کی حامل اور امارت شرعیہ کے لئے بیحد قیمتی تھی اور خاص طور پر مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری رح کے انتقال کے بعد قاضیوں کی سربراہی اور معہد میں قضاء و افتاء کی مشق کرنے والوں کی رہنمائی کے لئے ان کی ضرورت اور بڑھ گئی تھی۔
قاضی صاحب کی شخصیت کا ایک خاص پہلو ان کی نیکی اور تقوی وطہارت کی زندگی بھی تھی،وہ بےحد خاموش طبع اور متواضع انسان تھے،غیر مفید کام اور غیر ضروری مشاغل سے دور تھے، کسی کے معاملے میں مداخلت ان کا شیوہ نہیں تھاـ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ
"من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ” پر عمل پیرا رہےـ مسجد سے ان کا رشتہ بھی مثالی تھاـ
قاضی صاحب رح کا وطنی تعلق صوبہ بہار کے ضلع چمپارن سے تھا، تاریخ پیدائش 1942/ہے، ابتدائی تعلیم اپنے چچا سے حاصل کی، پھر چمپارن کے مشہور ادارہ "مدرسہ ریاض العلوم، ساٹھی” میں داخلہ لیا، اس کے بعد مادر علمی "دارالعلوم دیوبند” تشریف لے گئے اور 1963/میں سند فضلیت حاصل کی، جس سال آپ دورہ حدیث شریف میں تھے اس سال کل طلبہ کی تعداد 1409/ اور شریک دورہ حدیث شریف 156/تھے، آپ رح کے درسی ساتھی "جانشین شیخ الاسلام استاذ محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم ہیں” (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند) ہیں۔
آپ رح کی پوری زندگی درس و تدریس میں گذری،مختلف اداروں میں درس دینے کے بعد 1994/میں امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ تشریف لائے، یہاں بھی آپ سے بے شمار علماء، فضلاء نے خوب خوب استفادہ کیا جو آپ رح کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
اللہ تعالی حضرت رح کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین)