مذہبی مضامین

سلام کا پیام انسانیت کے نام

تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

اس دنیا میں جتنی قومیں آباد ہیں ان میں سے ہر ایک کے یہاں آپسی ملاقات کے وقت اور خوشی کا اظہار کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی لفظ موجود ہوتا ہے، چاہیے وہ ہندو ہو یا مسلم، سکھ ہو یا عیسائی ، ہر شخص اپنے اپنے مذہب کے مطابق مذہبی کلمات دہراتے ہیں، چنانچہ ہمارے ملک کے برادران وطن ، صبح کی ملاقات میں ۔۔ Good morning,شام کی ملاقات میں ۔۔Good night, کہتے ہیں، یا اسی طرح سے ، نمستے ۔ آداب۔ وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں،
لیکن اسلام جو کہ سراپا رحمت ہے ، اور خدا کا بھیجا ہوا دین ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے کلمات منتخب فرمائے کہ جسمیں دنیا کی بھی بھلائی ہو اور آخرت کی بھی بھلائی ہو ، گویا کہ ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت بھی خیر اور بھلائی ملحوظ رھے ، اسلام نے آپسی ملاقات کے وقت جس کلمہ کا انتخاب کیا ہے ، وہ کلمہ ۔۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، ہے،
جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر تکلیف اور مصیبت سے بچائے، جان و مال آل اولاد، حتی کہ دنیا و آخرت میں ہر قسم کی سلامتی عطا کرے، دوسرا شخص اس کے جواب میں ۔ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔ کہے اس سے آپس میں نہ صرف محبت و الفت پیدا ہوتی ہے بلکہ تعلقات میں بھی خوشگواری آتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی مذہب کے فرزند ھیں،
حضور صلی االلہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے آئے وہاں آپ نے بہت سے احکامات پر زور دئیے وہیں سلام کی اشاعت پر بھی خوب زور دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا۔۔ افشو ا السلام بینکم۔۔ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، ایک جگہ تحابوا کا لفظ استعمال فرمایا کہ سلام کو عام کرو آپس میں محبت پیدا ہوگی دلوں سے دوریاں ختم ہوگیں، آپس کی رنجشیں مٹیں گی، اور پھر تمہارے تعلقات میں خوشگواری ائے گی،
ایک موقع پر حضور صلی االلہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ حضور ۔۔ سب سے افضل اسلام کیا ہے؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔۔ جانے اور انجانے کو سلام کرنا،
اس میں کوئی شک نہیں کہ سب ایک ہی ماں باپ کے اولاد ہیں گویا آپس میں سب بھائی ہوئے، چاہیے وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو ایک ذرہ بھی شناسائی نہ ہو لیکن اگر ملاقات ہو تو سلام کیا کرو، جو جاننے والے ہیں یا جو بالکل آپ کے قریب ھیں اور چوبیس گھنہ آپ کے ساتھ رہنے والے ہیں ان کو بھی سلام کرو،
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ۔۔ جب تم میں کوئی دیوار سے چھپ جائے یا بیچ میں درخت حائل ہو جائے پھر جب نظر پڑے تو سلام کیا کرو، اس قدر تاکید کے ساتھ سلام کو عام کرنے کیلئے کہا گیا ہے، اور پھر اس میں نیکیاں بھی بے شمار ہیں ، ایک شخص حضور صلی االلہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ۔۔ السلام علیکم۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے دس نیکی حاصل کرلی، ایک اور شخص آیا اور کہا ۔۔السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔۔ آپ نے فرمایا اس نے بییس نیکیاں حاصل کرلی، ایک اور شخص آیا اور کہا۔۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے تیس نیکیاں حاصل کرلی، اس سے زیادہ کا الفاظ نہیں آیا ہے لہذا اس میں اضافہ کرنے سے بچنا چاہیے، (ترمذی شریف),
اس قدر تاکید اور فضائل کے باوجود ہم میں سلام کا رواج نہیں ہے، غیروں کا حال یہ ہے کہ جب بھی وہ آپس میں ملتے ہیں تو ضرور کوئی نہ کوئی کلمات ادا کرتے ہیں، اس چیز کا ان میں بہت خیال رکھا جاتا ہے،
ہماری قوم کا یہ حال ہے کہ اپنے باپ تک کو سلام نہیں کرتے خصوصاً نوجوانوں میں سلام کی عادت نہیں ہے، سلام کرتے شرم آتی ہے، ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے قرب قیامت میں لوگ ایک دوسرے سے سلام کرنے میں کترائیں گے، عرض ہے کیا یہ وہی زمانہ ہے؟؟۔ یا پھر ہم نے خود ایسا ماحول بنا لیا ہے؟
رشتہ داروں میں آپسی تعلقات میں جو دوریاں پیدا ہو رہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ سلام کی کمی کا ہے، ہمارا ایمان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیا کہ سلام سے محبت پیدا ہوتی ہے تو پھر اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ، جہاں جہاں اس طرح کے ماحول ہے وہاں خوشگواری زیادہ ہوتی ہے لیکن جہاں سلام کا رواج نہیں وہاں ناچاقیاں ہیں، اپسی رنجشیں ہیں اور پھر اس کے نتیجہ میں رشتہ داریاں ٹوٹتی ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے،
آج کے اس نازک دور میں جبکہ ہر طرف نفرت و عداوت کا ماحول دل بیزاری زوروں پر ہے ، دوریاں بڑھ رہی ہیں ایسے میں اس کا بس ایک ہی علاج ہے کہ سلام کو عام کیا جائے اس کو فروغ دیا جائے، بچہ بڑے کی زبان پر یہ کلمات یاد ہو اور ہروقت زبان پر جاری رہتا ہو تو کچھ بعید نہیں کہ آپ کی دوریاں ختم ہو جائیں گی اور الفت و محبت کا شجر لگنے لگے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے