اصلاح معاشرہ مضامین و مقالات

مسلم معاشرے کی تباہ کاریاں

تحریر: محمد پرویز عالم علیمی، سسواری پرینا بستی
رکن: شعبہ مضمون نگاری (نوری ویلفیئر سوسائٹی)

جب سے اس عنوان پر لکھنے کو کہا گیا ہے تبھی سے میں دریاۓ پیچ و تاب کی اتھاہ گہرائیوں میں ہچکولے کھا رہا تھا ۔اس لئے کہ نہ ابھی مطالعہ وسیع ہے اور نہ ہی قلم میں اتنی روانی ہے کہ جیسے ہی کسی نے عنوان دیا جھٹ لکھ ماریں۔ حالانکہ مسلم معاشرہ میں برائیاں و خرابیاں کافی تیزی کے ساتھ سرایت کررہی ہیں۔ جو دیمک کی طرح شدہ شدہ معاشرہ کے عروجی ڈنھاچہ کو کھوکھلہ کر رہی ہیں۔ویسے تو برائیاں لا تعداد اور بے شمار ہیں اس لئے بڑی کشمکش تھی کہ آخر کس پر خامہ سرائ کروں اور کون سی چھوڑ دوں۔
کافی کش مکش میں مبتلا تھا۔ کیا سپرد قرطاس کروں!!!کہ حالات حاضرہ کے اعتبار سے نہایت ہی موزوں ہو!!اور حساس معاملہ سے قوم کو شناسا کرایا جاۓ۔

اسی کشمکش میں تھا کہ اچانک 18 فروری کو اخبار کے ایک سنسنی خیز تراشے کے عنوان پر نظر پڑی۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، میرے وجود پر کپکپی طاری ہو گئ، جیسے کسی نے نہایت مہیب آواز میں پکارا ہو ۔بہر کیف! لرزتے ہوۓ ہونٹوں سے میں خبر پڑھنے لگا خبر کی ایک ایک سطر سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کائنات ارضی پر انسانی دشمن بھیڑیے انسانیت کو مردار چھری سے ذبح کر رہے ہوں۔

اخبار کی سرخی یہ تھی آزادی کے بعد پہلی بار کسی عورت کو دی جاۓگی پھانسی اور جانتے ہیں!!! وہ عورت کسی غیر مذہب کی نہیں تھی بلکہ اسلام کی کلمہ گو تھی، واقعہ یہ ہے کہ ضلع امروہہ کے تھانہ حسن گنج کے تحت بان کھیڑی میں رہنے والی شبنم علی کے گھر والے پر سکون زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس کے گھر میں کل سات افراد تھے۔ شبنم اکلوتی تھی اس لئے گھر والوں کی نظر میں محبوب تھی لیکن انہیں کیا معلوم تھا کل یہی اِن کے لئے موت کی وجہ بنے گی۔ عنفوان شباب کی دہلیز پر جیسے ہی اس نے قدم رکھا کہ عشق کا بھوت اس کے اوپر مسلط ہو گیا اور ایک سلیم نامی شخص کو اپنا دل دے بیٹھی۔اب پورا دن اسی کے خیال میں ڈوبی رہتی۔۔ جیسے جیسے دن گزرتے اس کی محبت کی چنگاری آگ کے شعلہ کی طرح بھڑکتی جاتی ، ایام جیسے تیسے کٹتے گۓ آخر ایک دن عشق کے شیطان نے اس سے وہ بھیانک کام انجام دلوایا جس سے انسانیت شرمسار ہو کے رہ گئ 14 اپریل 2008 کو اس نے اپنے گھر والوں کو زہر آلود کھانا کھلایا جب زہر نے اپنا اثر دکھایا تو سارے لوگ بے ہوش گۓ اور اسی بے ہوشی کے عالم میں اُس نے اپنے عاشق کے ساتھ مل کر ایک خونریز داستان اپنے ہی ہاتھوں لکھ ڈالی۔ گھر والوں کے گردن کو کلہاڑی سے اپنے عاشق کے مدد سے کانٹ کر جدا کر دیا۔ آخر میں ایک بچہ جس کے چہرے سے معصومیت ٹپک رہی تھی ۔سسک سسک کر اس نے قاتل سے رحم و کرم کی بھیک مانگی۔ سلیم فرط محبت کے زیر اثر آ گیا اور بچے کو چھوڑ دیا۔لیکن شبنم نے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ اس کی گردن مروڑ دی۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا۔ ان دونوں ظالموں نے سات لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی تعلیم سے نا بلد نہیں تھی بلکہ وہ ڈبل ایم اے تھی پولیس نے چھان بین شروع کی تو ان دونوں کا نام سامنے آیا چنانچہ ان دونوں کو جیل میں ٹھونس دیا گیا۔

جب فیصلہ کورٹ میں پہونچا تو منصف نے پھانسی کی سزا سنائ۔ ابھی پھانسی کی تاریخ متعین نہیں ہوئ ہے۔ اس کو متھرا جیل میں پھانسی دی جاۓ گی۔ جیل میں ہی اس نے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ واضح رہے وہ شادی سے پہلے ہی حاملہ تھی۔

میں جب خبر پڑھ چکا تو ایک لمحے کے لئے خموش بیٹھا رہا۔ دل کی دنیا میں عجیب سا کہرام برپا تھا کہ قوم کی بچیوں کو ہو کیا گیا ہے!!!؟ کل جن کے عفت و عصمت کی قسمیں کھائ جاتی رہی تھیں۔ جن کے تقدس و پاکیزگی کا چہار دانگ عالم میں شہرا رہا ہو، وہ اتنی نڈر کیسے ہو سکتی ہے!! آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ سب اسلامی تعلیمات و ارشادات سے دور رہنے کا نتیجہ ہے۔ کہتے ہیں لڑکیاں اپنے باپ سے زیادہ محبت کرتی ہیں۔ لیکن یہاں تو بالکل اس کے بر عکس معاملہ ہے، کتنے ناز و نعم سے باپ نے اس کو پالا پوسا اور سن شعوری کی منزل تک پہنچایا ہوگا،اپنا خون جگر پلا کر اُسے پروان چڑھایا ہوگا، خون پسینہ ایک کر کے اُس کی ہر مانگ کو پورا کیا ہوگا۔
لیکن ہائے رے ظالم دو دِن کی محبت نے سب کُچھ بھلا،شفقت پدری ذرا بھی اس کو یاد نہیں آئی اور اسنے ایک کھیلتا ہوا گھر اجاڑ دیا۔

قوم کی شہزادیو! خدارا حصول دنیا کی خاطر اپنی دنیا و آخرت کو داؤں پر مت لگاؤ۔ بھلا سوچو تو سہی کیا جواب دو گی قیامت کے دن اس رب ذوالجلال کو۔ جس نے تمہیں عفت و پارسائ کا تاج پہنایا! خدا کے لیے دنیا طلبی کے نشے میں اسلامی اصول کا بے دریغ خون مت کرو۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے