تحریر: احمدحسین قاسمی مدنی
معاون ناظم: امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
اس دنیامیں ہرلمحہ نت نئے واقعات اور دلسوزحادثات رونماہوتےرہتےہیں مگر کچھ ایسے سانحے پیش آتے ہیں جو انسان کے دل ودماغ کو غیر معمولی طور پر متأثر کرجاتےہیں جس واقعہ کاپس منظر جتنازیادہ حساس اور دردناک ہوتاہے انسان کی طبیعت پر اسکا ردعمل بھی اسی قدر زیادہ ہوتاہے اب تو دل دہلانے والے حادثے آئےدن اس طرح کثرت سے پیش آرہےہیں کہ وہ روزمرہ کاحصہ بن چکےہیں جن کےہرآن مشاہدے سےآدمی اپنی فطری انفعالی کیفیت بھی کھوتاجارہاہےاورپتھردل بنتاجارہاہےپھر بھی قدرت کے دیئےخزانے (انسانی اوصاف) اس کی فطرت سے لگے ہوئےہیں جو اس کی روح کی طرح زندگی کےآخری لمحےتک اس کااٹوٹ حصہ بنے رہتےہیں ۔
25/فروی 2021ء کی شام احمدآباد گجرات میں سابرمتی ندی کےکنارے عائشہ عارف خان زندگی کےغم سےگھبراکراور اپناآخر ی پیغام درد سناکر ہمیشہ کےلئے دریاکی خاموش تہوں میں جاکر خاموش ہوگئی ازدواجی زندگی کےالجھے مسائل نےاسےاتنامجبور کیاکہ غم ومصائب کابوجھ وہ اپنے چھوٹےسےدل پربرداشت نہ کرسکی اور ماں باپ کےہزار سمجھانے,دلاسادینے اورقسم دلانےکےباوجود ہمت وحوصلہ ہارکر خودکشی کربیٹھی۔ موت سےپہلے اسنےاپنےارادےاور عمل کی اطلاع جس سوشل میڈیا کےذریعہ دی اس نے جنگل میں آگ کاکام کیا اور اگلے دن تک سنسنی خیز طورپر ہرچہارجانب خبر پھیل گئی اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس حادثہ کے مختلف اسباب بتائے جارہے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے ایک بیوی کا حق جومذہب اسلام نے ایک شوہر پر رکھا ہے اسے یہاں پورےطورپر ادا نہیں کیا گیا اور عائشہ شادی کے بعد اس سےمحروم رہی اور جہیزکےناجائز مطالبات کی بناپر مظوم بھی رہی وہ اپنوں کےلئے مسلسل اپنی ذات سے لڑتی رہی مگر اسے نئی زندگی کی امید دلانے والا شاید اس کی زبان میں نہیں ملابالاٰخر جنگ ہار گئی مَثل مشہور ہے کہ” انسان مرنے کےوقت خاموش تو رہ سکتاہےمگر جھوٹ نہیں بولتا” عائشہ نے اپنی موت سے قبل کی ویڈیو میں اپنےاوپر ہوئے مظالم کی جانب اپنی منتشر باتوں میں بہت کچھ کہہ گئی اور خاص کر جوبے ربط اشاریئے دئیے ہیں ان سے واضح ہے کہ ظلم متنوع اور مختلف تھاخیر اب تو مقدمہ سرکاراورعدالت کی تحویل میں ہے۔ عائشہ کے والد کی روتی آنکھیں اوردردمیں ڈوبی غمناک زبان نے جو میڈیااورملک کی عوام وخواص سے اپیل کی ہے کہ” میری بیٹی عائشہ اب کبھی واپس نہیں آئیگی چاہے تم ظالم کو پھانسی دیدو مگر میری بس ایک ہی التجاء ہے کہ ملک کی دوسری تمام عائشہ کو بچالوخواہ وہ کسی بھی دھرم کی ہو
بیوی کےحقوق سےمتعلق قرآن پاک میں ہے کہ ” اور دستور کےمطابق بیویوں کےلئے حقوق ہیں جس طرح ان پرمردوں کےحقوق ہیں” (البقرۃ :228) ۔جناب رحمۃ للعالمین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: "تم(مردوں ) میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بہترسلوک کرتاہےاور میں اپنے گھروالوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنےوالا ہوں” (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : "مومنوں میں سب سے کامل ایمان والاوہ ہے جس کےاخلاق سب سے اچھےہوں اور تم میں سب سے زیادہ وہ بہتر ہیں جو اپنی بیویوں کےلئے اچھےہیں”(ترمذی)
آج کتنے افسوس کامقام ہے کہ جس مقدس مذہب میں بیویوں کےتعلق سے اتنی سنہری تعلیمات ہوں وہ اپنی حقوق تلفی کی وجہ سے خود کشی کررہی ہیں ہم مردوں کےلئے یہ حادثہ عبرت ہے
نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہردن ہوتے ہوں گے مگر عائشہ کی حالیہ موت نےملت سمیت پورے ملک کو جھنجھوڑدیاہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے محترم جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمدولی رحمانی دامت برکاتہم نے جو اہم بیان دیا ہے دراصل وہ ایک تحریک ہے جو پوری ملت کےعوام وخواص کے دل پر دستک دینے کاکام کررہی ہے امید ہے کہ ملت کا ہر باشعور فرد باضابطہ اور منظم طریقےپر معاشرے کی اس سمت میں اصلاح کاکام کرےگا راقم السطور کی بھی ملت کے ہرطبقےسے یہ ادنٰی سی گزارش
ہےکہ
ہر وہ شخص جسے عائشہ کی خود کشی کا ذرہ برابر بھی غم ہے اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی ذات, اپنے گھراوراپنے خاندان سے اسلامی طریقےپر نکاح شروع کرےاور اس بات کاعہدکرےکہ وہ جہیز جیسی غیراسلامی لعنت کو ہمیشہ کیلئے چھوڑدےگا اوراس سےپورے طور پراجتناب کرے گااور اسلام کی پاکیزہ بیٹیوں کووہ تمام حقوق دےگا جن کا اسلام ہرشوہر سےمطالبہ کرتا ہے تاکہ آئندہ پھر کوئی عائشہ تنگ آکر خود کشی کےدہانےپر نہ پہنچ سکے ۔اس کی خودکشی کے ذمہ دار صرف اس کے ظالم شوہراور سسرال والے نہیں بلکہ وہ پورامعاشرہ ہےجو جہیزاور اس جیسے دوسرےغیراسلامی کاموں میں سرعام ملوث ہے۔