تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل، نہ ٹھہر!
تحریر: میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ، بارہمولہ کشمیر
رابطہ نمبر:6005465614
أراني أنسى ما تعلمت في الكبر
ولست بناس ما تعلمت في الصغر
وما العلم إلا بالتعلم في الصبا
وما الحلم إلا بالتحلم في الكبر
عصر حاضر میں ملت اسلامیہ جدید فتنوں کا سامنا کررہی ہے۔ غزوہ فکری کی ان تیز آندھیوں کی تیزرفتاری دیکھ کر اہل شعور درد دل لئے مایوسی و پریشانی کی حالت میں غمزدہ و افسردہ ہیں کیونکہ ان فتنوں کا تدارک کرنے کے لئے وسائل تو موجود ہیں لیکن انہیں بروۓ کار لانے میں ملت کے فرزند غافل ہیں۔معاشی بحران نے مادیت کا عنصر صلاحیتوں پر غالب کردیا ہے۔شرعی علوم کو ایسے اداروں میں قید و مقید کر دیا گیا جہاں لاوارث، یتیم یا پھر غریب گھروں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں یا پھر ایسے بچوں کو ان اداروں کی طرف روانہ کیا جاتا ہے جن میں صلاحیتیں کم اور نواقص زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ قابل صلاحیت، ذہین و فہیم اطفال کمائی و حصول دولت میں معاون ثابت ہونگے جو چیز والدین کو دینی مراکز سے حاصل نہیں ہوسکتی۔اگرچہ یہ فہم بھی جہل پر مبنی ہے لیکن بعض دینی مراکز ایسے ہیں جو ایسے نظم و نظام کے شکار ہوچکے ہیں جو جدید و عصری تقاضوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔والدین کی اولین ترجیحات میں ایسے تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جو ان کی اس ضرورت کو پورا کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔عصری و سائنسی علوم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنا والدین کا مقصد حیات بن چکا ہے۔اس مقصد کو پاۓ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وہ ہر آن اور ہر لمحہ تعلیمی دانشگاہوں کا سفر کاٹ رہے ہوتے ہیں۔اغلاط العوام میں یہ بات شامل ہوچکی ہے کہ عصری علوم سے جو بچہ آراستہ ہو وہ شرعی علوم سے محروم رہ جاتا ہے۔سلفیہ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ریسرچ ٹرسٹ کے تحت چل رہے سلفیہ مسلم انسٹچوٹ نے اس ریت کو غلط ثابت کرنے کے لئے کمر بستہ ہوگیا ہے۔ ادارہ ھذا نے روز اول سے ہی طلباء و طالبات کو شرعی و عصری علوم و فنون سے لیث کرنے کا پختہ عزم کیا تھا اور بحمداللہ تعالیٰ اس مقصد کو کامیابی کی منازل تک پہنچانے کے لئے جمیعت کے خدام میدان عمل میں جدوجہد سے کام کر رہے ہیں۔سلفیہ مسلم انسٹچوٹ سرینگر کے علاقہ پرے پورا باغات میں واقع ہے جو، یہ وہ علاقہ ہے جہاں وادی کے مختلف اطراف سے آۓ ہوۓ طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں۔اس ضمن میں سلفیہ مسلم انسٹچوٹ جس انداز سے جدید challenges کا تعاقب کررہا ہے وہ قابل تحسین ہے۔
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جَو
سلفیہ مسلم انسٹچوٹ روز اول سے ہی عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی فکر سے بچوں کو مزین کررہا ہے۔ عصر حاضر کے پرفتن اور پرآشوب فضا میں قرآن و سنت کا نورانی پیغام بچوں تک پہنچانا اپنے آپ میں ایک قابل فخر اعزاز ہے۔عصر حاضر کے فتنوں جن میں الحاد،آزادانہ افکار، نسوانیت،فحاشی و عریانی کا تعاقب کرنا کوئی معمولی امر نہیں۔ اخلاقی و تربیتی بحران نے ہمیں مادہ پرستی میں مبتلا کردیا ہے۔ سلفیہ مسلم انسٹچوٹ شب و روز شرم و حیا، عظمت کردار،حلم و بردباری جیسے اوصاف ممدوحہ کے احیاء کے سلسلے میں محو سفر ہے۔بات قرآن و سنت کی ہو تو، اس وحی الہی کی ترویج کے لئے ادارہ ھذا میں قرآن و سنت میں راسخ و شرعی علوم میں ماہر اساتذہ کام میں لگے ہوئے ہیں۔سائنسی علوم میں مستند ڈگریوں سے لیث اور تجربہ کار اساتذہ طلباء کو تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے پر ابھار رہے ہیں۔ لسانیات پر زور دینے کے لئے ادارے نے ذہین و فہیم اساتذہ کو طلباء کے لئے میسر رکھا ہے تاکہ طلباء ہرفن مولی بن کر ریاست کے تہذیبی و ثقافتی طرز عمل کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکے۔جدید تقاضوں کو مد نظر رکھ کر وقت وقت پر مختلف موضوعات پر سیمینار منعقد کرنا ادارے کا دستور عمل ہے۔تخلیقی تجربات کے لئے ادارے کے پاس ایک اعلیٰ اور عمدہ لیبارٹری طلباء کے لئے وقف ہے۔ذوق مطالعہ و کتب بینی کے حریص طلباء و اساتذہ کے لئے ایک خوبصورت کتب خانہ میسر ہے جس میں مختلف علوم سے متعلق کتابیں میسر رکھنے کے لئے قیادت کام کر رہی ہے۔بچوں کے چھپے ہوئے ہنر حقیقی اسلوب میں لانے کے لئے طلباء و ذمہ داران نے وقت وقت پر پروگرام منعقد کئے۔اسکے ساتھ ساتھ اسلامی احکامات کو عملاً ادا کرنے کے لئے ادارے نے ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر و توسیع کی ہے جو مرکزی بلڈنگ کے اوپری منزل میں موجود ہے۔جہاں طلباء نماز و دیگر شرعی احکامات کی تعلیم لیتے ہیں۔نماز اور وضو کے لئے طلباء اور طالبات کے لئے جدا جدا انتظام کیا گیا ہے۔ ادارے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تعلیم و تعلم کا پورا نظام مخلوط نظام سے پاک ہے۔اسکول کے انفراسٹرکچر پر بات کی جاۓ تو ادارہ ھذا کے منتظمین ،اسکول کے ذمہ داران مبارک بادی کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے طلباء و طالبات کی ضروریات کا خیال رکھ کر ان دو سالوں میں بلڈنگ کے اندونی و بیرونی اطراف و اکناف پر توجہ(Repairs & Renovations)دے کر قابل تحسین کام انجام دیا۔ والحمد لله۔
ليس اليتيم من انتهى أبواه من
همِّ الحياة وخلَّفاه ذليلاً
إن اليتيم هو الذي تلقى له
امًّا تخلّت او ابًا مشغولا
سابقہ و عصری انتظامیہ کی انتھک اور خلوص بھری محنت سے ادارہ ھذا آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ چیرمین ٹرسٹ محترم شیخ غلام احمد بٹ المدنی، سیکرٹری ٹرسٹ ڈاکٹر عبداللطیف الکندی، چیرمین منیجنگ کمیٹی ماسٹر محمد یوسف صاحب نٹی پورہ، محترم عبدالرشید بابا صاحب, محترم عبدالرحمن صاحب و دیگر منتظمین مبارک بادی کے مستحق ہیں جنہوں نے اس ادارے کی فتح و نصرت کے لئے اپنے لیل و نھار وقف کردئیے ہیں۔اسکول کی اندرونی نظام کو ارفع و اعلیٰ بنانے کا شرف اساتذہ کو جاتا ہے جو اپنی صلاحیتوں کو کام میں لاکر طلباء کو ہنر مند و صلاحیت مند بنا رہے ہیں۔تعلیم یافتہ کے ساتھ ساتھ یہاں طلباء کو تربیت یافتہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اساتذہ کی قیادت اور تربیت کا شرف ادارہ ھذا کے مدیر (principal) یعنی محترم برادر نثار احمد سلفی صاحب کو جاتا ہے جو اساتذہ و دیگر املہ کو ہر وقت ادارہ کی ترقی کے لئے ابھارنے و حوصلہ مندی بخشی ہے۔ ۔covid-19 کے lockdown کے دوران اس اسکول نے درس و تدریس کے کام کو متاثر نہ ہونے کی انتھک کوشش کی ۔4g انٹرنیٹ سے محرومی کے باوجود اساتذہ و طلباء نے ایک ہوکر سیلبس بھی تکمیل تک پہنچایا اور اس کے ثمرات بھی حاصل کئے۔ lock down کے وقفہ کے دوران ادارہ ھذا نے قابل تحسین کام انجام دیا۔اسکول کی امتیازی خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ نگران اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء کے اخلاقیات پر بھی نظر رکھتا ہے تاکہ کوئی بھی طالب علم سیدھی راہ سے بھٹک نہ جائے۔شرعی لباس اساتذہ و طلباء، دونوں کے لئے لازمی اور واجبی ہے۔ملکی سطح پر اسکول نے بعض مقابلوں میں قائد کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی ہے اور اسکول کو Best School Award سے نوازا گیا۔ رواں سال کے موسم سرما میں ملکی سطح پر منعقد کئے گئے بعض مقابلوں میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے best school of srinagar کا award حاصل کیا۔ادارے سے فارغ ہونے والے طلباء کی ایک بڑی جماعت مختلف شعبہ جات میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔یہ ادارہ ہمارے اسلاف کی امانت اور وصیت ہے جس کی حق ادائیگی منتظمین کما حقہ کر رہے ہیں۔
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا
اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک علم دین بہت ہی افضل شیٴ ہے لہٰذا ”صاحب علم“ کا بھی مخصوص ترین مقام ہے قرآن پاک میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”ہَلْ یَسْتوی الذینَ یَعْلَمُون والذین لا یعلمون“ یعنی جاہل آدمی خواہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہوجائے، کتنی ہی زیادہ عبادت و ریاضت کرلے؛ لیکن وہ صاحب علم کے مقام کو پالے یہ ناممکن اور محال بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم دین کی عزت و توقیر کے لئے نیز اس کے حق میں دعاء مغفرت کرنے کیلئے ساری کائنات کو لگارکھا ہے، اسی کے ساتھ میدان محشر میں اس کو ایسے انعامات سے سرفراز کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، جن کو سن کر فرشتے تک رشک کرتے ہیں. طالب علم ہو، عالم دین ہو، یا ان کے علاوہ دینی مشغلہ رکھنے والا کوئی بھی شخص ہو، اگر وہ علم دین کے حصول اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے تواس کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار بشارتیں ہیں، ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا: ”لَنْ یَشْبَعُ الْمُوٴمِنُ مِن خَیْرٍ سَمِعَہُ حَتّٰی یکونَ مُنْتَہَاہُ الجنَّةَ“ مومن کا پیٹ خیر کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی طلب علم میں لگادی، اس کو جنت کی بشارت ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے اولیاء کرام ساری زندگی طالب علم ہی بنے رہے، حدیث میں طلب علم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص بھی مرتے وقت تک کسی طرح کے بھی علمی کام میں مشغول ہے، وہ اس بشارت کا مستحق ہے. یہ علماء ہی کا مقام و مرتبہ ہے کہ ان کے دم سے علم کا وجود ہے جب اللہ تعالیٰ اس دنیا سے علماء کو اٹھالیں گے تو علم بھی اٹھ جائے گا اور علم کے اٹھ جانے کے سبب ہر جانب تاریکی پھیل جائے گی کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہ ہوگا ہر شخص گمراہی کے عمیق غار میں سرتاپیر غرق ہوگا، جہلاء علماء کی جگہ بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں بتائیں گے؛ جن پر عمل کرکے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس لئے علماء کے وجود کو باعث خیر و برکت سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادہ کی ہر ایک کوشش کرنا چاہئے اور ان سے محبت رکھنے کو اپنے لئے سعادت خیال کرنا چاہئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ”اِنَّ اللّٰہَ لا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انتزاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعَلَمَاءَ“ اللہ تعالیٰ دین کا علم اس طرح نہیں اٹھائیں گے کہ لوگوں کے اندر سے کھینچ لے؛ بلکہ علماء کو اٹھالینے کی صورت میں دین کا علم اٹھ جائے گا، یعنی علماء زندہ رہیں اور ان کے سینوں سے علم نکال لیاجائے یہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ حاملین علم کو اٹھالیں گے اور ان کی جگہ دوسرے علماء پیدا نہیں ہوں گے۔ اس طرح علم خود بخود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا بقائے علم کے لئے ہر عالم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بعد کچھ علماء چھوڑے. انہیں اغراض و مقاصد کے ساتھ سلفیہ مسلم انسٹچوٹ اپنے آپ قدم بڑھا رہا ہے۔
نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
مگر یوں ہی کہ گویا مے زمزم میں داخل ہے
سلف صالحین کی خدمات کے ثمرات آج اس ادارے سے اخذ کئے جارہے ہیں۔گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی سلفیہ مسلم انسٹچوٹ کے دسویں جماعت کے طلباء نے اپنا نام وادی کے کامیاب ترین طلاب العلم کے صف میں شامل کیا۔پہلی پوزیشن ادارے کے ہونہار طالب علم فیضان رفیق (Faizan Rafiq) نے 493 نمبرات(98.6%)حاصل کرکے والدین و اساتذہ کا نام روشن کردیا۔ اسی طرح اسکول ذھین طالب علم ھارون رشید (Haroon Rashid) کے ساتھ ساتھ دوسرے طلاب العلم نے بھی اچھے نمبرات حاصل کرکے اسکول کا نام روشن کرنے میں اپنی صلاحیت بروۓ کار لائى ۔ ادارے کے لئے سب سے بڑی بلکہ نمایاں کامیابی یہ ہے کہ اس ادارے کی ایک عظیم طالبہ مسک المدینہ (Misq ul Madina) نے وہ تاریخ رقم کی جو اس ادارے کی تاریخی اوراق میں قید کردی جاۓ گی۔ طالبہ مسک المدینہ نے فقط 421 نمبرات (84%) ہی حاصل نہیں کئے بلکہ اسی دوران قرآن مقدس حفظ کرکے لوگوں کی اس فکر کو غلط ثابت کردیا کہ اہل دین عصری علوم وفنون میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ حافظہ مسک المدینہ نے علمی و عملی کردار سے اس بات کو ثابت کردیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی روحانی بیٹیاں اب بھی زندہ ہیں، ابن تیمیہ کے نقش قدم پر چلنے والی بیٹیاں آج بھی اس فضا کو اپنے گفتار و کردار سے مہکا رہی ہیں۔دو سال قبل ادارے کی طالبہ زینب قادری نے دسویں جماعت کے امتحانات میں پوری وادی کشمیر میں نمایاں طالبات میں اپنا نام شامل کیا۔
تم شوق سے کالج میں پھلو، پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو، چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
اسلام نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا ، اللہ نے آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پہلی وحی علم سے متعلق نازل کی گئی، اس کا اثر یہ ہواکہ اس امت کے افراد نے اپنے آپ کو علم کے لیے کھپادیا، شیخ عبد الفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں: ہمارے علماء اسلاف میں اکثر وبیشتر فقر وفاقہ کے شکار تھے ، مگر ان کا فقر تحصیل علم کے لیے کبھی رکاوٹ نہ بنا، اور انہوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنی محتاجی کو ظاہر بھی نہیں کیا۔حافظ ذہبی ”تذکرة الحفاظ“ میں ابو نصر سنجری کے بارے میں فرماتے ہیں ”عبد اللہ بن سعید بن حاتم، ابونصر سنجری(متوفی ۴۴۴ھ) فن حدیث میں ”حافظ“ کے مرتبہ پر پہونچے ہوئے ہیں، (یہی نہیں بلکہ) آپ اپنے دور میں حدیث پاک کے سب سے بڑے حافظ،امام وقت اور مینارہٴ سنت کی حیثیت رکھتے تھے، موصوف حدیث کی طلب میں زمین کے اس کنارہ سے اس کنارہ تک چکر لگاکر آئے ہیں“۔اسی نقش قدم پر چل کر سلفیہ مسلم انسٹچوٹ وادی کشمیر کے والدین کو اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے کہ دنیا و دین کی بہتری کے لئے ادارہ ھذا آپ کے لئے وقف ہے جہاں منھج نبوت و منھج سلف پر چل کر طلباء کو اپنی کھوئی ہوئی میراث سے آشنا و لیث کرایا جارہا ہے۔ بحمد اللہ تعالیٰ۔
وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھائو تجربے، اطرافِ دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر وبر سیکھو
خدا کے واسطے اے نوجوانو! ہوش میں آئو
دلوں میں اپنی غیرت کو جگہ دو، جوش میں آئو
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ادارہ ھذا کے منتظمین و اساتذہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ادارہ ھذا کو ترقی سے نوازے اور اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب کرے ۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔