مذہبی مضامین

بدنامِ زمانہ سَنت کی بدزبانی ناقابل برداشت

تحریر: زین العابدین ندوی
سنت کبیر نگر۔ یوپی

انسان نما شیطانوں سے یا یوں کہئے شیطان صفت انسانوں سے کوئی بھی زمانہ خالی نہیں رہا، حتى کہ نبی اکرم ﷺ کا دور سعید اور زمانہ خیر القرون بھی مسیلمہ کذاب جیسے ملعون سے محفوظ نہ رہ سکا، غلاظت بیانی اور حرام کاری جن کی فطرت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے، اسی فہرست میں ایک نام بدنامِ زمانہ سنت مہنت اتی نرسنگھا نند سرسوتی کا بھی شامل ہے، جو اپنی بدزبانی کے سبب اکثر سرخیوں میں رہتا ہے، کبھی تو وہ برادران وطن سے پانچ پانچ بچے پیدا کرنے کی پرزور مہم چلاتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی مہاتما گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کے مجرمانہ اقدام کو سراہتے اسے لائق تعظیم قرار دیتا ہے، حد تو یہ ہے کہ ملک کے لٹیرے انگریزوں کو اپنا مسیحا گردانتے ہوےملک کے پہلے وزیر تعلیم ابوالکلام آزاد مرحوم کو جہادی بتاتا ہے۔۔۔

غازی آباد میں واقع مہا شیو شکتی مندر کے اس بد زبان مہنت نے جو کچھ بھی کہا یہ سب تو ہم ایک درجہ میں بادل ناخواستہ برداشت کر سکتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں نبی اکرم ﷺ کے متعلق جس گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اور مسلمانان عالم کے دلوں کو چوٹ پہونچائی ہے اسے کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا، اور دنیا کو یہ معلوم ہے اور اگر نہیں ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم عاشقان رسول آپ کے ناموس کی خاطر اپنی جان بھی دے سکتے ہیں،تاریخ نے ایسا بارہا دیکھا ہے اور مسلسل دیکھتی چلی آرہی ہے، لفظ مہنت کو بدنام کرنے والا یہ شخص کہتا ہے کہ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے شوہر کا قتل کیا ہے، اس بدمعاش کو یہ بات کس نے بتائی؟ یہ بھارت کو مسلم مکت دیش بنانے کی باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے اسلامک کنٹری نہیں ہونے دیں گے، اس بے دال کے بودم سے کوئی یہ کہہ دے کہ مسلمانوں کی دین ہے کہ ملک بچا ہوا ہے ورنہ اس کا وجود بھی محفوظ نہ ہوتا، مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ اس ملک کی حفاظت کی بلکہ برادران وطن کو ان کے مذہب سے روشناس کرایا، البیرونی جیسے مسلم سیاحوں نے برادران وطن کو ان کے مذہب سے ریت رواج سے واقف کرایا، مسلمانوں کی کرم فرمائی ہے کہ کھانے پہننے کا رہن سہن کا سلیقہ ملا، اور یہ سب کچھ اس نبی برحق کی تعلیمات ہی کا اثر ہے کہ انسان اپنی ذات سے واقف ہو سکا۔

بار بار جہادی اور جہاد کی بات کرنے والے اس ریاکار مہنت کو شاید جہاد کا صحیح مطلب معلوم نہیں تو اسی ضمن میں میں یہ بتاتا چلوں کہ اسلام کے نظام جہاد اور بادشاہوں کی جنگوں میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ کہ اسلام نے اسے فتنوں کو خاتمہ کے لئے استعمال کیا اور بادشاہوں نے اس سے فتنوں کے شعلہ بھڑکاے اور اپنے ذاتی ناجائز مفاد کے حصول کے لئےانسانوں کے لہو سے زمین کو سرخ کر دیا، اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ عہد نبوی کی تمام غزوات میں صرف759 افراد مقتول ہوئے اور 6564 افراد قیدی بناے گئے جن میں سے چھ ہزار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے بعد بلا شرط آزاد کر دیا تھا، جبکہ امن پسندی کا ڈھنڈورا کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ ایک ایک جنگ میں ملین لوگوں کو موت کی نیند سلانے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرتے۔

نوٹ: ہمیں پہلے اپنے آپ سے یہ عہد لینا ہے کہ ہم سے کوئی بھی سنت ترک نہ ہونے پاے، دوسرے ان بدمعاش مہنتوں کے خلاف اتنا لکھنا اور بولنا ہے کہ ان کے کالے کرتوت سے پوری دنیا واقف ہو جائے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے