نتیجۂ فکر: سلمان رضا فریدی مصباحی، مسقط عمان
محروم نہیں رہتے سوالی، شبِ معراج
دامن کوئ رہتا نہیں خالی ، شبِ معراج
جاں بخش، دل افروز ہیں اِس رات کے منظر
ہے نسبتِ سرکار سے ، عالی شب معراج
اربابِ نظر نے اِسے جس رخ سے بھی دیکھا
اُس رخ سے نظر آئ مثالی، شبِ معراج
خِیرہ ہیں جسے دیکھ کے خورشید کی آنکھیں
اعجاز میں ہے ایسی اُجالی شب معراج
بـے چاندکی اِس رات پہ ہر چاند فدا ہے
رکھتی ہے وہ اوصافِ جمالی شب معراج
عاصی بھی یہاں مژدۂ جنت سے ہیں محظوظ
ہے نعمتِ فردوس کی تھالی شب معراج
آغوشِ "عَلَینَا” میں بدوں کو بھی سنبھالا
سر کار نے یوں لاج بچالی شب معراج
لایا درِ مولیٰ پہ ندامت کے جو آنسو
اُس شخص نے تقدیر بنالی شب معراج
جتنے بھی گنہگار ہیں اعلان یہ سن لیں
نیکوں میں بدوں کی ہے بَحالی شب معراج
مومن کے لیے باعثِ تسکین و مسرت
منکِر کے لیے برقِ جلالی شب معراج
ہستی میں گُلِ مدحت سرکار سجاکر
چَڑھ جاییے درجاتِ مَعَالی شب معراج
معراج ، حقیقت میں ہر اُس در کی ہوئ ہے
پہنچے جہاں کونین کے والی شب معراج
ہے آج بھی روشن ، مرے سرکار کا رستہ
ہر نقش بنا ، نقشِ ہلالی شب معراج
دوری تھی ملاقات میں قوسین سے ادنی
کیا خوب سجی بزمِ وِصالی شب معراج
جو طور پہ مانگا تھا یہاں آکے ملا ہے
موسٰی نے سَنَد ، دید کی "پا ” لی شب معراج
ہم پر بھی کُھلے وصلِ مدینہ کا کوئ باب
ہوجائے پَرے ، ہجرکی جالی شب معراج
قربان ہوئے جاتے تھے وہ پائے نبی پر
جبریل میں تھا جذبِ بلالی شب معراج
کیسے کوئ کرپائے بیاں اس کے کمالات
ہے دُور تر، از حَدّ خیالی ، شب معـراج
ممکن نہیں اُس وصل کی تمثیل فریدی
ہے قربِ محبت میں نرالی شب معراج