تحریر: محمد دلشاد قاسمی
ابن خلدون کے ساتھ نا انصافی ہوگی اگر یہ کہا جائے کہ اس نے صرف فلسفہ یا تاریخ ہی کی بنیادوں کو اجاگر کیا ہے کیونکہ مقدمہ ابن خلدون میں ہمیں کچھ اور دقیق مباحث بھی ملتے ہیں جن پر اس نے زمانے کے تقاضوں سے قدرے ہٹ کر گفتگو کی ہے ان میں سرفہرست نبوت کی بحث ہے ۔
یہ موضوع چونکہ اپنے مزاج اور اثرات کے اعتبار سے سراسر دینی ہے اس لیے مستشرقین نے اس پر مطلق اظہار خیال نہیں کیا حالانکہ معاشرہ جس عامل سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور جس عامل نے ملکوں اور قوموں کی جغرافیائی اور نسلی عصبیتوں کو ختم کرکے ایک ہی عصبیت میں ڈھالا ہے وہ مذہب ہی تو ہے اس کے مالہ اور ماعلیہ پر اگر غور وفکر نہ کیا جائے تو عمرانیات کی بحث تشنہ رہ جائے گی اور عمرانیات ہی کیا وہ تمام بحثیں ناتمام رہیں گی جن کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے نہ اخلاق کی صحیح اقدار کا کھوج لگایا جا سکے گا نہ سیاسیات کی زلفوں کو سنوارا جا سکے گا اور نہ اقتصادیات کی گرہیں کھل سکیں گی گویا نبوت کے بغیر یہ سب باتیں سربستہ راز ہی رہیں گی افسوس کی بات ہے کہ خارجی دنیا میں حیرت انگیز ارتقا کے باوجود انسان نے علوم باطن کو جاننے کی بلکل کوشش نہیں کی !! کہ اس کے باطن کے اندر کیا کیا معارف اور راز پنہاں ہے !!! اب تک اس کی تگ و تاز آفاق ہی کا جائزہ لینے میں مصروف رہی اگر دنیا صرف مادہ اور اس کے ظہورات کا نام نہیں ہے بلکہ ہر ہر مادی ظہور کے پیچھے ایک معنویت ہے ایک روح ہے تو ہم کھلے بندوں یہ کہیں گے کہ انسان کی وہ تمام ترقیات اس وقت تک ناقص رہیں گی جب تک کہ یہ اپنے نقطہ نظر کو روحانیت کی طرف نہیں موڑتا اور اسی انہماک اور اخلاص کے ساتھ بحث نہیں کرتا جس طرح یہ طبیعات سے بحث کرتا ہے اور یہ معلوم کر لینا زیادہ دشوار نہیں ہے کیوں ؟؟ اس لئے کہ مذہب اگرچہ آسمان سے نازل ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی سرحدیں زمین سے بھی ملتی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے
والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا (سوره عنكبوت)
جو لوگ ہمارے بارے میں فکر اور عمل کی صلاحیتوں کو صرف کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہ کھول دیتے ہیں ۔
ہمیں جو فکر کی دعوت نہ دے سکے دلشاد
وہ علم ظاہری تو ہے حقیقی علم تو نہیں