ازقلم: لقمان شاہد
سیدنا عثمان بن مَظْعُون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا ، آپ کی ایک بیٹی تھی جسے آپ نے اپنے بھائی قُدَامہ بن مَظْعُون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کیا تھا ۔
وہ بیٹی جب نکاح کی عمر تک پہنچی تو سیدنا و مولانا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا ، جسے قبول کرکے سیدنا قدامہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے ساتھ نکاح کردیا ۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو جب اس رشتے کا معلوم ہوا تو وہ لڑکی کی ماں کے پاس گئے اور انھیں مالی طور پر رغبت دلائی ( کہ اپنی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ کریں ، سُکھی رہے گی ۔
چوں کہ وہ ماں تھیں ، انھوں نے بَھلا اِسی میں سمجھا اور ) وہ راضی ہوگئیں ، اور ان کی بیٹی کا رجحان بھی اپنی والدہ کی طرح سیدنا مغیرہ کی طرف ہوگیا ، اور انھوں نے سیدنا ابنِ عمر کے رشتے سے انکار کردیا ۔
( حالاں کہ سیدنا ابن عمر حضرت عثمان بن مظعون کے بھانجے تھے )
یہ معاملہ جب رسولِ خداﷺ کی بارگاہِ اقدس میں پہنچا تو آپ سے حضرت قُدامہ کہنے لگے:
یارسول اللہ ! یہ میری بھتیجی ہے ، جس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی ۔
حضور ! میں نے اس کا رشتہ اس کے پھوپھی زاد عبد اللہ بن عمر سے کیا ہے اور میں نے اس کی بھلائی اور کفو میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ؛ لیکن یہ لڑکی اور اس کی ماں دوسری طرف مائل ہو گئی ہے ۔
رسول پاک ﷺ نےفرمایا:
” اس یتیم بچی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ "
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے:
اللہ کی قسم! یہ لڑکی میری ملکیت میں آنے کے بعد بھی مجھ سے چھن گئی اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں چلی گئی ۔
(ملخصاً: مسند احمد بن حنبل ، ر 6893 ، قال المحقق: صحیح)
اسی طرح حضرت ام سائب رضی اللہ عنھا کے والد نے ان کا نکاح اپنی مرضی کے ایک شخص سے کیا ، تو انھوں نے اس کے ہاں جانے سے انکار کر دیا ، اور کہا:
” میں نے حضرت ابو لُبَابَہ سے شادی کرنی ہے ۔ "
ان کے والد بضد تھے کہ جہاں میں نے نکاح کردیا ہے وہیں جاؤ ، لیکن وہ نہیں مانتی تھیں ۔
جب یہ معاملہ سید عالم ﷺ کے حضور پیش ہو گیا تو عادل و حکیم رسول ﷺ نے فیصلہ سنایاکہ:
” یہ عورت اپنےمعاملے کی (باپ سے) زیادہ حق دار ہے ، جہاں یہ چاہتی ہے وہیں اس کی شادی کی جائے ۔ "
اس فرمان عالی کے بعد ان کی شادی سیدنا ابو لبابہ رضی اللہ عنہ سے کر دی گئی ۔
(ملخصاً: ایضاً ، ر6898)
¹ جب کسی معاملے میں اللہ و رسول کا حکم آجائے تو مسلمان کو فوراً سرِتسلیم خم کردینا چاہیے ۔
² ہماری بیٹیوں کو اللہ کے رسول نے جو حق دے دیا ہے ، وہ ہم ان سے کسی صورت نہیں چھین سکتے ، چھینیں گے تو ظالم کہلائیں گے ۔
نکاح کے معاملے میں وہ اپنی پسند ، ناپسند کا اختیار رکھتی ہیں اور اس کا اظہار کرنے میں ہم سے زیادہ حق دار ہیں ۔
اللہ کرے یہ بات ہمارے ذہن میں ہمیشہ کے لیے بیٹھ جائے ، اور ہم جو جھوٹی پارسائیاں ، رکھ رکھاؤ ، اور رسم و رواج لیے بیٹھے ہیں ان سے ہماری جان چھوٹ جائے۔