از قلم: محمد اشفاق عالم نوری فیضی
رکن: مجلس علماے اسلام مغربی بنگال شمالی کولکاتا نارائن پورزونل کمیٹی کولکاتا۔136
رابطہ نمبر۔9007124164
مکرمی! اللہ رب العزت کا قرآن مجید میں فرمان عالیشان ہے۔ بےشک اس نے فلاح پائی ،جس نے اپنے آپ کو پاک کیا اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔ ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا تاج فقط اس شخص کے سر کی زینت بنتاہے، جو فکری اور علمی گمراہیوں سے اپنا دامن بچاتا ہے اور ذکرِ الٰہی میں شب وروز مصروف رہتا ہے اور یہ ایک ابدی حقیقت ہے جسے قرآن کریم میں بیان کردیا گیا ہے اور اس سے پہلے جو آسمانی صحیفے انبیاء سابقین پرنازل ہوئے ان میں بھی اس حقیقت کو بیان کردیا گیا ہے حقیقت تو یہ ہے کامیابی اور سر خروئی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک انسان حضرت خواجہ خواجگان سید محبوب الٰہی بخاری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کا مصداق نہ بن جائے۔آپ فرماتے ہیں۔
در یاد جمال تو چناں مشغو لم
کہ ز خود خبرے نیست کجامے باشم
یعنی اے اللہ میں تیرے جمال جہاں آرا کی یاد میں اس قدر مشغول ہوں کہ مجھے اپنی خبر نہیں کہ میں کہاں ہوں؟ تو معلوم ہوا کہ دارین میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے خدا عزوجل کے بے شمار طریقے اپنے بندوں کے درمیان رکھ دیے ہیں۔ان میں ایک رمضان المبارک کے رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ میں نماز تراویح بھی ہے جسے ہم آپکے سامنے بیان کر رہے ہیں آپ ملاحظہ فرمائیں۔
رمضان المبارک میں نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں دن میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات میں نماز تراویح ادا کی جاتی ہے۔ ماہ رمضان کی راتوں میں ادا کی جانے والی بیس رکعات نماز باجماعت کا نام ’’تراویح‘‘ اس لئے رکھا گیا کہ جب لوگوں نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا شروع کی تو وہ ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر آرام کرتے تھے، جتنی دیر میں چار رکعات پڑھی جاتی تھیں، یعنی تراویح کے معنی آرام والی نماز ہے۔نماز تراویح بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اور احادیث نبویﷺ میں اس کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نماز تراویح کی مداومت فرمائی ہے، چنانچہ حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم سمجھو‘‘۔اور خود حضور اکرم ﷺ نے بھی نماز تراویح ادا فرمائی اور اسے پسند فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ سے اور طلب ثواب کیلئے، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘ یعنی صغائر۔ پھر اس اندیشہ سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے، آپﷺ نے ترک فرمائی۔خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رمضان کی) ایک شب مسجد میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طورپر نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ’’میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں تو بہتر ہے‘‘۔ اس طرح آپ نے ایک امام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ لوگوں کو اکٹھا کردیا۔ پھر دوسرے دن تشریف لے گئے تو ملاحظہ فرمایا کہ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت آپ نے فرمایا ’’یہ ایک اچھی بدعت ہے‘‘ (بہار شریعت) واضح رہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام بنایا تو تمام صحابۂ کرام نے اس پر اتفاق کیا اور کسی نے اعتراض نہیں کیا، اس لئے کہ صحابۂ کرام میں سب سے بہتر قرآن مجید پڑھنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
حضور اکرم ﷺوخلفاے راشدین اور آئمہ اربعہ کی پسندیدہ چیزیں:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری دنیا کی تین چیزیں مجھے پسندیدہ ہیں۔ خوشبو، عورت ،اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائی گئی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺآپ نےسچ فرمایا۔اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھنا اور رسول اللہﷺ پر اپنا سارا مال خرچ کردینا اور یہ بات کہ میری بیٹی( عائشہ) رسول اللہﷺ کے نکاح میں آجائے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیااے صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آپ نے سچ فرمایا۔ اور فرمایا مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں اچھی بات کا حکم دینا بری بات سے روکنا اور پرانا کپڑا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا۔اے فاروق اعظم آپ نے سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں بھوکوں کو کھانا کھلانا ننگوں کو کپڑے پہنانا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا۔اے عثمان! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں مہمان کی خدمت کرنا گرمیوں میں روزہ رکھنا اور تلوار سے جہاد کرنا۔ اتنے میں جبریل امین علیہ السلام بھی آگئے اور حضور ﷺ سے کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ آپ کی یہ گفتگو سن کر اللہ تعالی نے مجھ کو بھیجا ہے تاکہ آپ مجھ سے دریافت فرمائیں کہ اگر میں( جبریل) اہل دنیا میں سے ہوتا تو مجھکو کون سی تین چیزیں پسند ہوتیں۔حضورﷺ نے فرمایا اچھا تم بتاؤ! کہ اہل دنیا میں سے ہوتے تو تمہیں کون سی چیزیں پسند ہوتیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ گمراہوں کو راستہ بتانا۔ اور اللہ تعالی کی عبادت کرنے والے غریبوں سے محبت کرنا اور تندرست عیال داروں کی مدد کرنا۔ اس کے بعدجبرئیل امیں نے بتایا کہ خدا تعالی کو بھی اپنے بندوں کی تین خصلتیں پسند ہیں۔ہمت و طاقت کا خرچ کر نا اور شرم وندامت کے وقت رونا اور فاقہ کے وقت صبر کرنا۔
جب یہ حدیث ائمہ اربعہ تک پہنچی۔ تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا مجھے بھی تین چیزیں بڑی پسند ہیں ساری ساری رات جاگ کر علم حاصل کرنا۔ تکبر و غرور کو چھوڑنا اور دنیا کی محبت سے خالی دل ۔”حضرت امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اور مجھے بھی تین چیزیں بڑی پسند ہیں۔سرسبز گنبد کے قرب وجوار میں رہنا۔قبر انور کے ساتھ رہنا۔اور اہل بیت اطہار کی تعظیم کرنا۔ حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور مجھے بھی تین چیزیں بڑی پسند ہیں مخلوق کے ساتھ لطف و کرم کے ساتھ پیش آنا تکلفات کو چھوڑنا اور تصوف کی راہ پر چلنا۔ حضرت امام احمد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اور مجھے بھی تین چیزیں بڑی پسند ہیں حضور ﷺ کے ارشادات کی پیروی کرنا حضور ﷺ انوار سے برکت حاصل کرنا اور حضور ﷺ کے نقش قدم پر چلنا۔” اللہ ربّ العزت ہم سبھوں کو رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے مالا مال فرماے۔آمین