مضامین و مقالات

افسانہ ہی حقیقت ہے


ازقلم: غلام آسی مونس پورنوی

عبداللہ کی شادی کے تقریباً 15 سال کا ایک طویل عرصہ گذر چکا تھا، ان پندرہ سالوں میں عبداللہ کافی پریشان تھا، وہ صرف اس آس میں رہتا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا ہے لاتقنطوامن رحمۃ اللہ : یعنی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو
عبداللہ کی بیوی ہندہ بڑی شریف اور نہایت ہی دیندار عورت تھی، وہ اپنے شوہر عبداللہ کو ہمیشہ سمجھاتی کہ پریشان نا ہو اللہ نے اگر قسمت میں اولاد رکھی ہے
وہ ضرور ہماری گود کو ایک نا ایک دن اولاد کی نعمت سے بھر دے گا
ان گذشتہ پندرہ سالوں سے عبداللہ اور ہندہ نے بے انتہا دعائیں مانگیں، ہزاروں درگاہوں پر جا جا کر صاحبان مزار کو وسیلہ بنا کر بارگاہ رب میں فریادیں کی،
ہندہ کی حالت ایسی ہوگئی تھی،کہ جو جیسا کہتا ہندہ ویسا کرتی، جہاں جہاں جانے کی بات کہی جاتی ہندہ اولاد کی جستجو لے کر اس در کا دروازہ کھٹکھٹاتی، مگر ہربار ہندہ مایوس ہوکر ہی لوٹتی، اچانک ایکدن ہندہ کو خیال کہ ہم نے ساری بارگاہوں پر حاضری دے کر اولاد کی التجائیں تو کیں ہیں، ہزاروں ماہر ڈاکٹر کو دکھایا، لاکھوں روپے پانی کی طرح بہا دئیے. مگر کہیں سے بھی امید کی کرن پھوٹتی نظر نہیں آئی…… مگر ایک بارگاہ ایسی رہ گئی ہے، سنتے ہیں جو اس دربار میں جاتا ہے، مرادیں پاکر آتا ہے،
شہنشاہ ہندوستان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ کے دور میں سلطان کے خوف سے اندھا آنکھ طلب کرتا ہے تو بینائی واپس کردی جاتی ہیں، جادوگر جاتا ہے تو عبداللہ بیانی بن کر لوٹتا ہے، گدا جاتا ہے تو تاج سلطانی عطا کردی جاتی ہے، اس دربار کو دربار غریب نواز کہتے ہیں، کیوں نہ اس دربا میں جاکر صاحب دربار کو وسیلہ بناکر رب سے نعمت اولاد مانگی جائے
پھر کیا تھا،،،،، دو نوں میاں بیوی نے اجمیر مقدس کا رخت سفر باندھ لیا، چار دنوں کی سفری صعوبتوں کو برداشت کرکے دربار غریب نواز پر پہنچے، نہادھو کر سلطان الہند کی بارگاہ میں حاضری دی،اور روروکر اپنے رب سے غریب نواز کے وسیلے اولاد مانگی………….. پروردگار کی رحمت کو جوش آیا، اللہ کے اپنے محبوب کے بیٹے کے وسیلے ہندہ اور عبداللہ کو ٹھیک نو مہینے بعد ایک چاند سا مکھڑے والا، بیٹا عطا فرمایا، ہندہ اور عبداللہ کی خوشیوں کا ٹھکانہ نا رہا،،گاؤں میں شہنائیاں بجنے لگی لوگ جوق در جوق عبداللہ کے گھر آتے مبارکباد دیتے عبداللہ انہیں مٹھائیاں کھلا کر ان کا منہ میٹھا کراتے،
ساتویں دن عقیقہ کراکر سارے گاؤں کو دعوت پر بلایا گیا، امام صاحب کو خصوصی دعوت پیش کی گئی، تاریخ مقررہ پر سبھی رشتہ داروں عزیزوں دوستوں یاروں، اور گاؤں والوں کا جم غفیر عبداللہ کے دروازے پر موجود تھا، مختلف اقسام کے ماکولات و مشروبات کا انتظام کیا گیا تھا، جب سبھوں نے کھانے سے فراغت حاصل کرلی،،،، مائک پر اعلان ہوا تمامی مہمانوں سے گذارش ہے کہ آپ سبھی ہال میں تشریف لے چلیں،آج ہی میرے بچے کا نام کرن ہوگا، اور امام صاحب جہاں کہیں آپ ہال میں تشریف لائیں، سبھی مہمانان اور امام صاحب ہال میں جمع ہوگئے، عبداللہ اور ہندہ کی خوشیوں کا ٹھکانہ نا رہا، امام صاحب اپنے شاگردوں کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لے آئے،

بالآخر بہت غور فکر کے بعد امام صاحب نے مائک پر اعلان کیا کہ جیسا کہ آپ سبھوں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ آج ہم اور آپ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں، وہ اس لئے کہ جناب عبداللہ کو اللہ نے ایک چاند سا مکھڑے والا، جس کے لب دیکھو تو گلاب کی پنکھڑی لگے، چہرہ دیکھو تو عکس آفتاب و مہتاب نظر آئے، اسی خوشی میں آج ہم لوگوں نے بھی شرکت کرکے عبداللہ کے خوشیوں کو دوبالا کیا دوسرا مقصد یہ ہے کہ آج اس ننھے منے لاڈلے کا نام بھی رکھا جائیگا،
میں نے اس منے کا نام محمد………. (بروزن سفیان) چنا ہے، پورا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا،
وقت کی سوئی اپنی رفتار سے چلتی رہی یہاں تک کہ محمد……….. (بروزن سفیان) دیکھتے ہی دیکھتے اپنی زندگی کی پانچویں سیڑھیوں پر چڑھ چکا تھا،
انہیں ایام میں ایک دن اچانک عبداللہ کا انتقال ہوگیا،،،،،،،،،،،،،،،، عبداللہ کے انتقال کا اثر ہندہ پر ایسا ہوا کہ ہندہ دماغی توازن کھوبیٹھی، ہندہ کے ماں باپ ہندہ کو اپنے ساتھ لے گئے، تقریباً ایک سال کے علاج کے بعد ہندہ کی طبیعت میں کافی سدھار آئی،

دھیرے دھیرے ہندہ نے حالات کے قدموں سے قدم ملا کر چلنا بھی سیکھ لیا تھا، جب اسے عبداللہ کی یاد آتی، ہندہ…… محمد…….. (بروزن سفیان)کے ماتھے کو چوم لیتی،
عبداللہ نے اپنے بعد اپنی اولاد کے لئے کافی زمینات اور مال و دولت چھوڑا تھا،
اب ہندہ کی ساری حیات کی پونجی …… محمد…….. (بروزن سفیان) کی ذات تھی، اسی مابین ہندہ کے لئے عقد ثانی کے کئی پیغامات بھی آئے مگر ہندہ نے …… محمد…….. (بروزن سفیان) کے سہارے جینے کا فیصلہ کرلیاتھا اس لئے وہ کافی دباؤ کے باوجود بھی عقد ثانی کے لئے انکار کرتی رہی، اور اپنے شوہر کے چھوڑے ہوئے مال سے اپنے جگر کے ٹکڑے …… محمد…….. (بروزن سفیان) کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ کیا، وقت گذرتا گیا اسی مابین ناجانے کیسے 25 سالوں کا ایک طویل عرصہ گذر گیا پتہ ہی نہیں چلا،
ہندہ کی عمر اب 60 /65 سالوں کے قریب تھی، …… محمد…….. (بروزن سفیان) نے بھی ڈاکٹر بن کر ڈھیر ساری دولت جمع کرلی، بنگلہ، گاڑی، عزت شہرت …… محمد…….. (بروزن سفیان) کے دربار کی کنیز بن کر رہنے لگی تھی
تبھی ماں کی ممتا نے کروٹ لی وہ ماں جس نے اپنا وجود اپنے جگر پارے کے لئے وقف کردیا تھا، اس ماں کا بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا ارمان جاگا،، کچھ دنوں میں گھر سے بہو کی کمی بھی دور ہوگئی،
کچھ دنوں تک تو گھر کا ماحول ٹھیک ٹھاک چلتا رہا، کچھ دنوں کے بعد ساس و بہو کے مابین کچھ کہا سنی ہوگئی، بہو نے مبالغہ آرائی کرتے ہوئے بیٹے کے کان بھرنا شروع کردیئے دھیرے دھیرے …… محمد…….. (بروزن سفیان) نے اپنی ماں کی طرف توجہ دینا کم ہی کردیا تھا، اس کا اثر ہندہ پر ایسا ہوا کہ وہ پھر سے دماغی توازن کھو بیٹھی، اور ایک دن اپنے گھر سے نکل کر نا جانے کس طرف رخت سفر باندھا کسی کو کچھ خبر نہیں، اسی مابین کئی ایام بھی گذر گئے، مگر زن مرید بیٹے کا دل تھوڑی دیر کے لئے بھی نا ڈھرکا، اچانک فیسک بک پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں کچھ لوگ ایک توازن کھو چکی بوڑھی عورت (جس کی عمر تقریباً 75 برس ہوگی) کو گھیر کر ویڈیو بنا رہے ہیں اور بوڑھی ماں سے دریافت کرتے ہیں ماں جی آپ کا نام وپتہ کیا ہے بوڑھی ماں سب پھر پھر بتانے لگی…….. میں بائسی……………. گاؤں کی رہنے والی ہوں میرا بیٹا ڈاکٹر ہے اور اس کا نام ہے………….. …… محمد…….. (بروزن سفیان)………… انہیں لوگوں میں سے کسی نے کسی طرح سے بوڑھی ماں کے بیٹے کا نمبر حاصل کرکے
…… محمد…….. (بروزن سفیان) کو فون لگایا ……. ہیلو……… ڈاکٹر………. …… محمد…….. (بروزن سفیان) بول رہے ہیں…… جی بول رہا ہوں……….، سر آپ کی ماں بھٹکتے بھٹکتے……….. گاؤں میں آگئی ہے کافی بھوکی تھی ہم لوگوں نے کچھ کھلا کر پانی پلادیا ہے، آپ آکر اپنی ماں کو لے جائیں،،،،،،،،،،
اب جواب سنئے یقنا جواب سن کر ہر انسان کا کلیجہ پھٹ جائے گا،ہوسکتا ہے صاحبان درد پر غشی طاری ہوجائے، کیونکہ جواب ہی کچھ ایسا تھا،،،،،،، جسے سن کر ہر عورت اپنے رب کے حضور اپنے آنچل کو پھیلا کر یہی دعا کرے گی مولیٰ مجھے بے اولاد ہی رکھنا مگر ایسی اولاد نا دینا………………… محمد…….. (بروزن سفیان) کا جواب تھا : بھائی صاحب اور بسکٹ وغیرہ کھلا کر کسی گڈھے وغیرہ میں دھکیل دیں مجھے ایسی ماں کی ضرورت نہیں ہے،

بہت ہی سوچنے کا مقام ہے وہ ماں جس نے اپنی جوانی کو بیٹے پر لٹا دیا ہو، خود بھوکے رہ کر اپنے منہ کا نوالہ بیٹے کے حلق میں ڈالا ہوں، جس ماں نے بیٹے کو یتیمی کا احساس تک نا ہونے دیا ہو، جس نے اپنے ماضی و حال و مستقبل کو داؤ پر لگا بیٹے کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا ہنر بخشا ہو
آج اسی ابھاگن ماں کے نالائق بیٹے کے پا س ماں کو کھلانے کے لئے دو روٹی نہیں،
آج اسی زن مرید بیٹے کو اس بوڑھی کمزور اور بے یارو مددگار ماں کی ضرورت نہیں……………لعنت ہے ایسے بیٹوں اور بیٹیوں پر جس نے نفس پرستی کے لئے اپنی جنت کو اپنے ہاتھوں سے ہی پائمال کردیتے ہیں، اللہ ہدایت نصیب فرمائے

🌹🌹🌹🌹🌹🌹

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے