سیاست و حالات حاضرہ

خونی پنچایتیں اور بے بس سرکاریں

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف

مفظر نگر : ﺍﮔﺴﺖ 2013 ﻣﯿﮟ جو ﺧﻮﮞ ﺭﯾﺰﯼ ہوئی تھی اس میں ﺳﺎﭨﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ 150 ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺩﺳﯿﻮﮞ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺴﻠﻢ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﻠﯿﻒ ﮐﯿﻤﭙﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﯿﻦ ﺩﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﭼﻠﮯ ﺍﻥ ﻓﺴﺎﺩﺍﺕ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﻻ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺟﺐ ﯾﮧ ﻓﺴﺎﺩ ہوا ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺗﺮ ﭘﺮﺩﯾﺶ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﺟﻮﺍﺩﯼ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﮐﯽ حکومت ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ تھا ﮐﮧ 150 ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ 9 ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ 1800ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ، ﺟﻮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮬﻮﮰ ﺗﮭﮯ، 5 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻥ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻦ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ 3 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﺌﮯ، ﺟﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺯﺧﻤﯽ ﮬﻮﮰ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ 50 ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﮐﻢ ﭼﻮﭨﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ 20 ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﺌﮯ۔ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻌﺎﻭﺿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﺷﺮﻁ ﺟﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻓﺴﺎﺩ ﺯﺩﮔﺎﻥ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﻮﯼٰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ- اس شرط کے خلاف کچھ تنظیمیں سپریم کورٹ گئیں جہاں حکومت کو سخت پھٹکار لگی – حکومت پر اس کا اثر الٹا ہوا اور دسمبر کی کڑاکے کی سردی میں ریلیف کیمپوں میں مقیم لٹے پٹے مسلم ایک بار پھر حکومت کی کرم فرمائی سے بے گھر ہوگئے –

2013 کا فساد بھی خونی پنچایتوں کا نتیجہ تھا

ویسے تو یہ پنچاتیں اپنے فرامین کے لیے ملک بھر میں مشہور ہیں- کبھی لڑکیوں کے موبائل رکھنے کو لے کر تو کبھی لڑکیوں کے اسکول جانے، جینس کی بجائے ساڑی پہننے جیسے فرمان کو لے کر، کبھی یہ پنچاتیں عصمت دری کرنے والوں کے لیے بننے والے پھانسی کا قانون نہ بنائے جانے کی وکالت کرتی ہیں تو کبھی 40 سال سے کم عمر عورتوں کو گھر سے اکیلے نکلنے پر پابندی کا اعلان کرتی ہیں -ان پنچایتوں کا اتنا اثر ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف بھی کھل کر بولتی ہیں – بالغ لڑکا، لڑکی شادی کرسکتے ہیں مگر کھاپ پنچایتیں اس کی اجازت نہیں دیتیں – 2013 میں ہونے والا مظفر نگر فساد بھی ایسی ہی پنچایتوں کا نتیجہ تھا- جو چند نوجوانوں کا آپسی جھگڑا تھا، لیکن پھر جو ہوا اس نے ان پنچایتوں کی طاقت اور حکومتوں کی بے بسی کا نوحہ تاریخ کے سیاہ اوراق میں درج کردیا –

__اس فساد سے جو ماحول سازی ہوئی اس سے مغربی اتر پردیش میں بی جے پی کو فائدہ ہوا اور 2017 میں سماجوادی اپنے کئے کی سزا پاکر حکومت سے باہر ہوگئی – ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کا یہ علاقہ اس طرح کی واردات سے دونوں صوبوں کی سیاست پر اثر ڈالتا ہے اور اب جب اتر پردیش الیکشن کو صرف چند ماہ باقی ہیں اس طرح کی پنچاتیں اور اس میں شرکت کرنے والی پارٹیاں اپنا ووٹ بینک کمزور نہیں کرنا چاہتیں- بی جے پی پھر پنچایتوں کا دور شروع کر کے ایک طرف چھ ماہ سے جاری کسان آندولن کو توڑنا چاہتی ہے تو دوسری طرف نفرت بھرے ماحول سے عام ہندوؤں کے اذہان کو بی جے پی کی طرف موڑنا چاہتی ہے – اتر پردیش الیکشن میں یہی ماحول اسے فائدہ پہنچائے گا-

30 مئی کو آصف کے قاتلوں کی حمایت میں پنچایت

"آصف کو پٹواری اور اڈوانی نے قتل کیا تھا۔ ارے سنو بھیا ! ۔ میں نے اڈوانی جی کو فون لگایا دہلی ۔ میں نے کہا اڈوانی جی بڑھاپے میں قتل کر رہے ہو …”
یہ الفاظ 30 مئی کو ہریانہ کے "نوح” علاقے میں ہونی والی خونی پنچایت کو مخاطب کرتے ہوئے ” کرنی سینا” کے لیڈر سورج پال نے اپنی تقریر میں جب کہے تو ہریانہ کے” اندری” گاؤں میں منعقدہ اس مہا پنچایت میں کچھ لوگ ہنس پڑے۔ تو کچھ خاموش رہے۔
سورج پال نے اپنے فیس بک پیج پر اس مہاپنچایت کی ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں انہوں نے جارحانہ انداز میں کہا کہ "نا پٹواری نے یہ قتل کیا ہے ۔ نہ ہی اڈوانی نے یہ قتل کیا ہے ۔ اگر اسے(آصف) قتل کیا گیا ہے تو یہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہے – آئیے ہم ہمت کریں ۔ اور کہیں کہ ہم قصوروار نہیں ہیں۔ ہمارے بچے مجرم نہیں ہیں۔ وہ ہماری بہنوں بیٹیوں کی عریاں تصاویر بناتے ہیں۔ کیا ہم ان کا قتل تک نہ کریں؟۔..”
جب سورج پال سے ان کی تقریر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا "ہمیں اپنے دفاع میں کیا کرنا چاہئے؟ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہماری بہن کی گھناؤنی فلمیں بنائیں گے تو ہمیں اپنے دفاع میں کیا کرنا چاہئے؟ اسے آم کا اچار دیں؟ ۔” (بی بی سی)
ایسی پنچایتیں جب ہوتی ہیں، پولیس موقع پر موجود ہوتی ہے – شدت پسند ہزاروں کی بھیڑ دیکھ کر اپنے جذبات کا کھلا اظہار کرتے ہیں – ایسے دل خراش جملے، اور ایسی مکروہ اور گندی زبان مسلمانوں اور مسلم خواتین کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کی اجازت نہ تو قانون دیتا ہے اور نہ ہی اخلاقی اقدار، لیکن یہ نیو انڈیا ہے – یہاں ہر ایک مسلمان کی لاش پر چڑھ کر ہی سیاسی عروج پانا چاہتا ہے – بغیر محنت کے یہ شارٹ ٹرک اکثریتی ہوشیار لوگوں کو سمجھ آگئی ہے- اور وہ اسے بھنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں – حکومت کو نہ کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی خفیہ اداروں کو اس پر کوئی خاص انٹرسٹ ہے – پہلے کہا جاتا تھا کہ حکومت آفیسر چلاتے ہیں لیکن اب دیکھا جارہا ہے کہ حکومت آفیسروں کو چلا رہی ہے – بی جے پی حکومت پر نوکر شاہوں کو اتنا بھروسا ہے کہ وہ حکومت کے اشارے پر کچھ بھی کرسکتے ہیں – کیوں کہ بی جے پی حکومت کسی کا ادھار نہیں رکھتی – بابری مسجد کا فیصلہ سنانے والے جج کو راجیہ سبھا بھیجنا ہو یا اپنے چہیتوں کو گورنر بنانا ہو، نظام کے خلاف جاکر اپنے اپنے قریبی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانا ہو یا الیکشن کمیشن کا صدر بنانا ہو، بی جے پی اپنے محسنین کا خوب خیال رکھتی ہے – اگر کہیں اسے دقت ہے تو صرف مسلمانوں سے ہے اور وہ ہر طرح سے مسلمانوں کے ہاتھ پیر باندھ دینا چاہتی ہے – ایسے میں آپ اپنی حفاظت خود کریں-

سیکولرازم کے پجاری ہندوتوا کے ادھیکاری

30 مئی کو ہونے والی اس مہا پنچایت میں 15 سے 50 ہزار لوگوں کی شرکت کا دعویٰ کیا جارہا ہے – اس پنچایت کی خاص بات یہ تھی کہ مختلف جماعتوں کے لوگ اس اجلاس میں پہنچے تھے۔ کانگریس ، جننائک جنتا پارٹی ، انڈین نیشنل لوک دل وغیرہ ۔اس پنچایت میں ہریانہ، راجستھان اور یوپی کے لوگوں نے شرکت کی – ان سیکولر ازم کے علم برادروں سے جب پوچھا گیا کہ آپ لوگ کیوں شریک ہوے، تو جواب تھا یہ انصاف کی لڑائی ہے – ہم قاتلوں کی حمایت میں نہیں بل کہ اس قتل میں بے قصور پکڑے جانے والے نوجوانوں کے حق میں اکٹھا ہوئے ہیں – اس جواب پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کا یہ شعر یاد آتا ہے :

آنکھ سے کاجل صاف چرا لیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے ننید نکالی ہے –

اپنی قیادت کا سپورٹ سیکولر پارٹیوں کا سپورٹ ہے

اس پنچایت میں جس طرح کی جارحانہ تقریریں ہوئیں کیا وہ ان سیکولر لیڈروں کو نہیں دکھیں؟ یقیناً وہ سب کچھ جان کر انجان بن رہے ہیں کیوں کہ وہ اپنا ووٹ بینک نہیں کھونا چاہتے – حالانکہ کہ ان کا ووٹ بینک کتنا بچا ہے یہ سب پر عياں ہے –
رہے مسلمان! تو یہ جائیں گے کہاں؟ ایسے میں ہمیں مسلم قیادت پر بھی توجہ کی ضرورت ہے – آئندہ الیکشن کو ابھی وقت ہے ہمیں مضبوطی سے کام کرنا ہوگا – اب صرف سیکولر پارٹیوں کے بھروسے نہ رہا جائے بل کہ اپنی قیادت کو بھی تھوڑا سپورٹ کیا جائے – جہاں ہماری تعداد کم ہو وہاں ان سیکولر پارٹیوں کو دیکھا جائے اور جہاں ہماری آبادی تیس فیصد سے زائد ہے ان علاقوں میں مسلم قیادت کو مضبوط کیا جائے -زیادہ نہیں ہمیں یہ کام صرف بیس سے تیس نشستوں پر ہی کرنا ہے – اب قوم مسلم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم اپنی قیادت کو مضبوط کریں گے تو وہ کامیابی کے بعد بی جے پی کو سپورٹ نہیں کریں گی ، بل کہ وہ ان سیکولر پارٹیوں کو ہی سپورٹ کریں گی اور اس طرح آپ حکومت میں دخيل ہو سکتے ہیں – یعنی ہم اپنی قیادت کو سپورٹ کرکے بھی سیکولر پارٹیوں کو ہی سپورٹ کر رہے ہوں گے –

9/6/2021

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے