خواجہ غریب نواز

خواجہ غریب نواز اور ولایت ہند

تحریر: محمد کونین نوری مصباحی
شیخ الحدیث ومفتی دارالعلوم عطائے رسول،رضا نگر،کوٹہ،راجستھان
موبائل نمبر:9773496752

دنیا میں جب کفر وشرک،ظلم و جہل اور جبر وتشدد کا شتر بے مہار اسلامی عقائد ونظریات ،انسانی، اخلاقی اقدار وروایات کو پائمال کرتا ہے تو قدرت ایسے افراد کو انسانی معاشرہ کے لئے رحمت بنا کر بھیجتی ہے جو اسے لگام دیتے ہیں اور لوگوں کو کفر وشرک،جبر وتشدد اور ظلم وجہل کی تاریکی سے نکال کر اسلام وایمان اور علم و شعور کی شاہراہ پر گامزن کردیتے ہیں۔
اِنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ يُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ وَيَذَرُوۡنَ وَرَآءَهُمۡ يَوۡمًا ثَقِيۡلًا‏ ۞یعنی بے شک یہ لوگ دنیاوی زندگی کو دوست رکھتے ہیں اور قیامت کے بھاری دن کو پس پشت چھوڑ دیتے ہیں۔
پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں جب برصغیر ہندوپاک میں انسانیت دم توڑ چکی تھی،مسلمان زبوں حالی کے شکار ہوچکے تھے،مادیت کا تسلط وغلبہ تھا،روحانیت چراغِ سحر کی طرح آخری سانسیں لے رہی تھی،بدعات وخرافات نے ہرسو اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے،ایسے عالم کفر وابطال میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے حضور خواجہ غریب نواز قدس سرہ العزیز کو ہند کی سلطنت عطا فرمائی اور اجمیر مقدس کو اہل عقیدت کا قبلہ بنایا۔
حضور خواجہ غریب نواز نجیب الطرفین سید تھے،نسبی فخر کے ساتھ نسبتی اعزاز میں بھی کمال حاصل تھا اور یہ مقام عمل صالح اور تقویٰ سے نصیب ہوتا ہے جس کے اعمال جتنے اچھے ہوں گے وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک اسی قدر معزز ومکرم ہوگا۔ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ‌ ؕ ۞
بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے.
حدیث شریف میں ہے:
لا فضلَ لِعربِيٍّ على عجَمِيٍّ ولا لِعجَمِيٍّ على عربيٍّ ولا لأحمرَ على أسْودَ ولا لأسودَ على أحمرَ إلّا بالتَّقوى۔
حضور خواجہ معین الدین حسن چشتی والدین کریمین کی آغوش تربیت سے لے کر اسلامی علوم کے بڑے بڑے مراکز خراسان،سمرقند،بخارا تک جاکر علومِ اسلامیہ میں مہارت تامہ حاصل کی۔اس کے بعد سلوک و معرفت کی منزلیں طے کر نے کے لئے سلطان المرشدین حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ رحمۃ الباری کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،توآپ فرماتے ہیں کہ جب میں قدم بوسی کے لئے زمین پر سر رکھا ارشاد ہوا کہ جا اور دورکعت نفل شکرانہ ادا کر،حضور کے ارشاد کے مطابق دورکعت پڑھ کر حاضر ہوا،پھر فرمایا:قبلہ رو بیٹھ،میں قبلہ رخ بیٹھ گیا،فرمایا:سورہ بقرہ پڑھ۔جب میں پڑھ چکا تو حکم ہوا کہ اکیس بار درودشریف اور اکیس بار سبحان اللہ پڑھ۔میں اس سے فارغ ہوا تو اس وقت حضور نے کھڑے ہو کر منھ آسمان کی طرف کیا اور اس فقیر کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ آ تجھے خدا تک پہونچا دوں اور خدا رسیدہ کردوں،اس کے بعد ہی حضور نے دست مبارک میں مقراض (قینچی)لے کر اس دعا گو کے سر پر چلائی اور اپنی غلامی میں لے لیا پھر کلاہ چہار گوشہ اس عقیدت کیش کے سر پر رکھی اور اعزاز بخشا اور گلیم خاص عطا فرمائی،اور فرمایا: بیٹھ جا۔میں بیٹھ گیا۔ارشاد ہوا کہ ہمارے خانوادہ میں ایک رات دن کا مجاہدہ آیا ہے۔جا! آج کے دن اور آج کی رات ذکر میں مشغول ہو۔
چنانچہ یہ درویش حضور کے حکم وارشاد کے مطابق کامل ایک شبانہ روز طاعت وعبادت میں مشغول رہا دوسرے روز جب خواجہ عثمان ہارونی نور اللہ مرقدہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ بیٹھ جا،اور ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ،جب میں پڑھ چکا تو فرمایا کہ آسمان کی طرف دیکھ،میں نے دیکھا ۔فرمایا:اب تو کہاں تک دیکھتا ہے؟میں نے عرض کیا: عرشِ اعظم تک۔پھر فرمایا کہ زمین کی طرف دیکھ،جب میں نے زمین کی طرف دیکھا تو پوچھا:کہ اب کہاں تک دیکھتا ہے؟میں نے عرض کیا :تحت الثریٰ تک۔پھر فرمایا کہ ایک ہزار بار سورہ اخلاص اور پڑھ۔جب میں پڑھ چکا تو فرمایا کہ اب پھر آسمان کی طرف دیکھ۔جب میں نے دیکھا۔فرمایا:اب کہاں تک دیکھتا ہے؟میں نے کہا: حجاب عظمت تک۔پھر فرمایا کہ آنکھ بند کر۔میں نے آنکھ بند کرلی۔پھر فرمایا کہ آنکھ کھول دیے۔میں نے آنکھ کھول دی تو مجھ کو دوانگلیاں دست مبارک کی دکھلائی دیں۔فرمایا کہ اس میں کیا دکھلائی دیتا ہے؟میں نے کہا: اٹھارہ ہزار عالم معلوم ہوتے ہیں۔جب میں نے یہ عرض کیا تو ارشاد فرمایا کہ اب تیرا کام پورا ہوگیا. (انیس الارواح:5/بزرگوں کے عقیدے:293)

صاحب سیر الاولیاء حضرت خواجہ امیر خورد کرمانی نظامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضور خواجہ غریب نواز قدس سرہ العزیز جب سلطان المرشدین حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوربیعت وارادت سے مشرف ہوئے تو آپ بیس سال تک مرشدِ کامل کی خدمت میں رہے،بیس سال کے عرصے میں ایک لمحہ بھی خدمت سے غافل نہیں رہے،سفر وحضر میں بستر اور سامان ساتھ لے کر چلتے تھے چنانچہ جب مرشدِ کامل نے آپ کے خلوص خدمت اور عقیدت کو پوری طرح محسوس کرلیا تو مرشدِ کامل نے اپنے کمال کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا جیساکہ آپ نے اوپر ملاحظہ فرمایا۔(سیر الاولیاء:89)

حضور خواجہ غریب نواز قدس سرہ العزیز جب اپنے پیر و مرشد کے ہمراہ بیت اللہ شریف کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے تو وہاں بھی مرشدِ کامل نے آپ کا ہاتھ تھاما اور میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر آپ کو اللہ تعالٰی کے سپرد کیا اور دعا کی تو غیب سے آواز آئی کہ ہم نے معین الدین کو قبول کیا۔بارگاہ خداوندی سے قبولیت کی سند حاصل کرنے کے بعد سوئے طیبہ روانہ ہوئے روضہ رسول پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی بحکمِ مرشدِ کامل سلام عرض کیا تو روضہ رسول سے جواب آیا وعلیکم السلام یا قطب المشائخ۔یہ آواز سن کر سلطان المرشدین حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بیٹا!جا اب تیرا کام پورا ہوگیا۔(اقتباس الانوار:348)

ولایت ہند بارگاہ نبوی سے مزید انعام یہ ملا کہ آپ کو ہند کی سلطنت عطا ہوئی جیساکہ سیر الاقطاب میں مذکور ہے کہ ایک روز حضور خواجہ غریب نواز قدس سرہ العزیز مدینہ منورہ میں مصروف عبادت تھے اور اب کو یہ بشارت ملی کہ اے معین الدین!تو میرے دین کا معین ہے،میں نے تجھے ہند کی ولایت عطا کی وہاں کفر وشرک،ظلم و جہل کی تاریکی پھیلی ہوئی ہے،تو اجمیر جا،تیرے وجود سے کفر کا بادل چھٹے گا اور اسلام کا سورج روشن ہوگا۔(سیرالاقطاب:124)

میں یہ سمجھوں گا،مجھے دولت کونین ملی۔

راہ طیبہ کی اگر آبلہ پائی مل جائے۔
(شیخ الاسلام مدنی میاں)

اس بشارت عظمیٰ ہر آپ کو بے حد خوشی ہوئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اجمیر کون سی جگہ ہے؟ اور ہند کہاں ہے؟اسی حیرت و استعجاب اور غور وفکر میں آنکھیں بوجھل ہوگئیں اور بخت جاگا،رحمت عالم حضور ﷺ کے جمال جہاں آرا کی زیارت نصیب ہوئی پھر آن واحد میں اجمیر،ہند اور وہاں تک کا جغرافیائی نقشہ نگاہوں کے سامنے تھا جس کو آپ نے اچھی طرح ذہن نشین کرلیا۔
بعدہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آخری سلام پیش کیا اور چالیس اولیائے کرام کے ہمراہ اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر بحر وبر کی وسعتوں میں دینی شوکتوں کا پرچم لہرانے کے لئے روانہ ہوئے۔یہی وہ اسلام ہے جس کے لئے پیغمبر اسلام رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دندان مبارک شہید کئے،ہاں یہی وہ اسلام ہے جس کے لئے صحابہ کرام نے تن من دھن کی قربانیاں پیش کیں۔جب ہم اس جانگداز سفر کا تصور کرتے ہیں تو اس کی مشکلات وصعوبتوں سے کلیجہ منھ کو آجاتاہے،کہاں مدینہ منورہ کا پاکیزہ شہر اور کہاں ہند کا گمنام،اجنبی علاقہ اجمیر۔آج ہم سفر حج پر زیارت حرمین شریفین کے لئے جاتے ہیں تو جہاز کے ذریعے جاتے ہیں،دوش ہوا پر جاتے ہیں اور چند گھنٹوں میں پہونچ جاتے ہیں اس کے باوجود طبیعت ہلکان سے ہوجاتی ہے،اضطراب وبے چینی کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں جب کہ جانا وہاں ہے جہاں جنت بھی قربان۔مشکلات کچھ نہیں،سہولیات ساری پہلے سے تیار،راستہ بھی پرامن،خطرات وحوادثات بھی الا ماشاءاللہ۔اورواپسی بھی طے شدہ۔لیکن اس سفر میں تو ہردن حشر کا دن، ہررات قیامت کی رات،کہیں کوئی آرام ہے نا کوئی سہولت،کوئی شناسا ہے نا کوئی رفاقت،ڈاکووں کا ڈر ہے تو کہیں ظالم طاقتوں کا اندیشہ،موسم کی نزاکت ہے اور حالات کا تلاطم بھی،کہیں جنگل و بیابان ہے تو کہیں گھاٹیاں،کہیں صحرا ہے تو کہیں حد نگاہ سمندر کا پھیلاؤ،مگر اللہ تعالٰی کا یہ مقبول بندہ،رسول پاک کا سچا نائب،صدیق اکبر کی صداقت کا پرتو،فاروق اعظم کی عدالت کا مظہر،رحم وکرم میں عثمان غنی کی تصویر،باطل شکنی میں حیدری شمشیر،حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا منظور نظر،توکل علی اللہ کا جبل شامخ،قطب الارشاد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی غریب نواز رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا بغداد،چشت،خرقان،جہنہ،بخارا،تبریز،اصفہان،سبزوار،ہرات اور دیگر مقامات سے گذرے،جہاں سے گزرے اور جدھر سے گزرے زندگی کے مینار تعمیر کرتے چلے گئے،آپ کا انداز تبلیغ اتنا دلنشین اور ذات ستودہ صفات اتنی پر کششِ تھی کہ جو بھی دیکھتا کہ آپ کی زلف محبت کا اسیر ہوجاتا۔
بالآخر لاہور میں حضرت سید علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری دی،چلہ کشی فرمائی،روحانی و عرفانی فیوض وبرکات سے مستفیض ہو ئے اور وقت رخصت آپ نے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں یہ شعر فرمایا:
گنج بخش فیض عالم،مظہر نور خدا۔
ناقصاں را پیر کامل ،کاملاں را رہ نما۔
یعنی حضرت کا فیض پورے عالم میں ہے اور آپ نور خدا کے مظہر ہیں راہ طریقت میں جو ناقص ہے اس کے لئے پیر کامل ہیں اور کاملوں کے لئے رہنما ہیں۔
لاہور سے پنجاب اور پنجاب سے اجمیر تشریف لائے چنانچہ جب آپ لمبی مسافت طے کر کے،سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرکے اجمیر پہونچے تو اس وقت پتھورا (پرتھوی راج چوہان) یہاں کا حکمراں تھا جسے اس کی ماں نے بارہ سال پیشتر ہی ایک مرد قلندر کی آمد اور اس کے زوال سلطنت کی خبر دے چکی تھی،جب پتھورا کو میرے خواجہ غریب نواز کی آمد اور بندگان خدا کو جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہونے کی اطلاع ملی تو طرح طرح کی اذیتیں پہنچانےلگا،نوع بنوع امتحانات لینا شروع کر دیالیکن میرے خواجہ غریب نواز کو ہر میدان میں فتح و ظفر اور بالادستی حاصل رہی،بارگاہ رسالت کے قدسی صفات مہمان کے ساتھ وقت کےظالموں سے جو کچھ بھی ہو سکا وہ سب کر دکھایا یہاں تک کہ بیٹھنے کی جگہ اور پینے کا پانی تک بند کردیا،لیکن میرے خواجہ غریب نواز کے پائے استقلال میں جنبش تک نہ آئی آپ اپنے مشن کے لئے ویسے ہی جمے رہے جیسے کوہ ہمالہ اور تارا گڑھ کا پہاڑ زمین کی چھاتی پر جما ہوا ہے۔

کہتے ہیں نا کہ اقتدار کا نشہ بہت برا ہوتا ہےپتھورا روزانہ میرے خواجہ غریب نواز کے مریدین و معتقدین کو ظلم وستم کا نشانہ بناتا،سمجھانے پر بھی اپنی ناپاک حرکتوں سے باز نہیں آتا بالآخر ایک دن خود ہی نشان عبرت بن گیا،ہوا یہ کہ میرے خواجہ غریب نواز کی شان میں توہین کی اور اسلام و قرآن کا مذاق اڑایا تو آپ نے فرمایا:پتھورا را زندہ گرفتہ بدست لشکر اسلام دادم۔یعنی پتھورا کو زندہ گرفتار کر کے میں نے اسلامی لشکر کے حوالے کردیا۔گفتہ او گفتہ اللّٰہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود۔ زمانہ نے دیکھا کہ چند ہی دنوں میں سلطان شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر حملہ کیا اور پتھورا زندہ گرفتار کرلیا گیا پھر اسے اپنے انجام تک پہنچا دیا گیا۔
پھر تو کفر ٹوٹتا ہی چلاگیا اور اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوتی گئیں یہاں تک کہ میرے خواجہ غریب نواز کے دست حق پرست پر نوے لاکھ غیر مسلموں نے کلمہ توحید کی شہادت دے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت عظمیٰ کی تعبیر وتکمیل بن کر معین الدین کو اسم با مسمی ثابت کیا۔

وصال باکمال: 6/رجب المرجب 632 ہجری کی شب، وصال کی تھی جس میں قطب الارشاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز کے قدم چومتی ہوئی موت آئی،اور حیات بلائیں لے کر رخصت ہوگئی۔جبین اقدس میں لکھا تھا۔ہذا حبیب اللہ مات فی حب اللّٰہ۔(مراۃ الاسرار:609)
خواجہ ہند کی راجدھانی اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز کا روضہ پر نور عشق ومحبت کا مرکز اور غریبوں کا قبلہ آرزوہے،جہاں اکناف عالم سے جن وانس اور ملائکہ حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور نصیبے کی ارجمندی پر فخر کرتے ہیں اور شکر الہی بجا لاتے ہیں۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے