خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاک
کیسے ہوتا ہے مجھ سے یار نہ پوچھ
مار دیتا ہے سب کو پیار نہ پوچھ
راہ تکتا میں اس کی رہتا ہوں
حسرت انتظار یار نہ پوچھ
اس کے بن تیرگی لگے دن میں
دل لگی کا ڈھلا خمار نہ پوچھ
میں سمجھتا تھا ہوں سیانا میں
پھنس گیا ہو کے میں شکار نہ پوچھ
یار ہوتے تھے چار سو میرے
کیسے اجڑا میرا دیار نہ پوچھ
غزلیں میری سمجھ نہ پائے گا
تو مکرر یا بار بار نہ پوچھ
دل میں فیضان کے بستا اک وہ ہے
مان لے بات تو شمار نہ پوچھ