ازقلم: برکت خان امجدی
خادم دارالعلوم معین الاسلام شیخ نگر پیپاڑ
کہاوت بہت مشہور ہے کہ "سچائی کو پریشان کیا جاسکتا ہے فتح نہیں” یہ کہاوت پیپاڑ کی سنیت کے ان کالے دنوں پر کما حقہ صادق آتی ہے جب پیپاڑ میں سنیت کے جانباز مبلغ کو کئی طریقوں سے پریشان کیا جارہا تھا جب حریف ان کے علم و تبلیغ کا جواب لانے سے عاجز آگئے تو ان کی صحت و روح پر حسب قوت وار کئے گئے لیکن وہ آسانی سے شکست قبول کرنے والا کہاں تھا کونکہ انہوں نے رضویت و اشرفیت کے مجمع بحریں کے چشمہ یعنی حضور اشفاق العلماء کے در کا فیض حاصل کیا تھا جو پیپاڑ میں اخلاق و کردار علم و ادب میں فقید المثال شخصیت گزری ہے آج بھی اگر ان کا نام لیا جائے تو حزب مخالف کا کلیجہ منہ کو آتا ہے اللہ نے جہاں علم سے نواز تھا وہی جسمانی و روحانی قوت سے بھی سرفراز فرمایا تھا یہ مبلغ اپنی ان قوتوں کو اشاعت دین کی خاطر استعمال کرنے میں ہرگز پیچھے نہیں ہٹتا تھا پیپاڑ کے اس بے نظیر مبلغ نے اسی زمین پر منڈرانے والے بدعقید گی کے کالے بادل اس طرح چاک کئے کہ فریق مخالف کے چہرے کے طوطے اڑھ گئے۔
الغرض جان کو ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کو عقائد صحیحہ سے آراستہ کرنا امت مسلمہ کو مسلک اعلی حضرت پر قائم رکھنا مساجد و مدارس کی حفاظت یہ آپ کا اہم مشغلہ تھا پیپاڑ میں آج یہ جو علماء اہل حق کا قافلہ ہے اس کا سہرا آپ کو اور اپ کے ساتھیوں حضرت مولانا فاروق شیرانی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا آصف صاحب قبلہ دہلی و حافظ شریف صاحب قبلہ ساکن بینگٹی پھلودی کو جاتا ہے ان شخصیات نے بہت کم وقت میں اتنے افراد پیدا کئے کہ کچھ لوگ پچیس سال سے قوم کو لوٹ رہے ہیں پھر بھی نہ کر سکے خیر اللہ توفیق دے آمین
پیپاڑ کی زمین پر امام الانقلاب کہلانے والی ذات کا اسم گرامی وقار حضرت مولانا علی محمد خان صاحب اشفاقی سندھی رحمۃ اللہ علیہ ہے پیپاڑ میں آپ کو علی محمد صاحب کے نام سے جانا جاتا تھا آپ ایک زمین دار گھرانے میں سن 1962 عیسوی کو پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام حاجی محمود خان صاحب تھا آپ کی جائے پیدائش کو ایسانانیو (इसानाणियो) کی ڈھانی گنگالا باڑمیر راجستھان سے موسوم کیا جاتا ہے آپ نے کچھ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی حاصل کی پھر مزید خوشہ چیں کے لئے آپ نے الجامعة الاسحاقیہ کی جانب رخت سفر باندھا اور مفتی اعظم راجستھان اور دیگر اساتذہ کرام کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیا و علوم دینیہ حاصل کرکے علماء و مشائخ کے ہاتھوں سن 1987عیسوی میں دستار باندھی و سند فضیلت بھی لی جس ماتھے پر یہ دستار رکھی گئ تھی اس میں علم و فکر اور اصلاح کا ٹھاٹھے مارتا سمندر تھا دل نور ایمان سے تابناک و اشاعت دین کی خاطر مر مٹنے کو تیار تھا۔
پیپاڑ میں آپ کی تبلیغ) بعد فراغت آپ کا جو پہلا ملعب تبلیغ تھا وہ پیپاڑ ہی کی زمین تھی جو بدعقیدگی کے نام پر خطہ راجستھان میں مشہور تھی آپ آتے ہی جامع مسجد شیخ نگر کے امام مقرر ہوئے اور متصل مکتب بھی سنبھالا آپ کے علم جوان و فکر شباب کے چند ہی دنوں میں غیر بھی قائل ہو گئے لیکن اعداء بھی بڑے پکے ہو گئے اسی عداوت کو پروان چڑھاتے ہوئے آپ کی جوانی میں ہی آپ پر بڑے سخت سحری اثرات مرتب کیے جن کی وجہ سے آپ کے چین کا خاتمہ ہوا جوانی کے وہ آرام دہ دن بستر علالت پر گزانے پڑے آپ کا وہ عظیم الجثہ بدن لاغر ہوتا جارہا تھا راقم نے دیکھا تھا کہ آپ رمضان میں اکثر تشریف لایا کرتے تھے ہر بار پچھلی بار کے مقابلے آپ کمزور و لاغر ہوتے جب آپ آپ بیتی سناتے تو لوگ بڑے غور سے سنتے تھے جن کو ان شاءاللہ تعالیٰ میں مولانا علی محمد و مولانا فاروق رحمۃ اللہ علیہما کا جادوئی دور سے لکھونگا آپ کی زبان و دماغ پر بھی بندش لگائی گئی قاتلانہ حملے بھی ہوئے الغرض دشمن آپ کی جان کے بھوکے پیاسے تھے لیکن پھر بھی آپ نے ہار نہیں مانی اور پوری ہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے جبکہ کئی روحانی طبیب یہ بھی کہ چکے تھے کہ ان بندشوں کا ٹوٹ جانا قریب المحال ہے۔
پھر بھی یہ مصلح ان کو دندان شکن جواب دیتا رہا اگر میں یہ کہ دو تو بھی خطاوار نہیں کہ پیپاڑ میں سنیت کا کام کرنے والوں پر قاتلانہ و سحرانہ حملے ہوتے رہے ہیں آپ ان جادوئی مسلک کے لوگوں کے پہلے شکار بنے تھے لیکن شکار خود شکاری ہوگیا کونکہ آپ کی ذات رخت ہستی تھی۔
اتنا کچھ برداشت کرنے کے باوجود آپ نے دارالعلوم اہلسنت معین الاسلام شیخ نگر میں حفظ و قرائت کے درجات کی ابتداء فرمائی اس ادارے کی تاریخ آپ کے نام بغیر نامکمل ہے آپ ہی کی بدولت 2001 میں پہلا دستار حفظ کا جلسہ منعقد ہوا اس کے علاوہ آپ قریب کی ڈھانیوں میں تبلیغ و تعلیم کی غرض جایا کرتے تھے وقتاً فوقتاً میلاد و اصلاحی محفلیں بھی کرتے تھے الحاصل آپ نے اس ادارے اور اس علاقے کو اپنے خون پسینے سے سینچا تھا آپ کے احسان کا آج تک یہ علاقہ مقروض ہے جو تا دم آخر نہیں چکا پائے گا پھر آپ سن 2000 میں اپنے آبائی وطن تشریف لے گئے لیکن ہر رمضان کو پیپاڑ ضرور تشریف لاتے تھے پھر 4محرم 1437 مطابق 6 اکتوبر 2016 بروز جمعرات اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے انا للہ و انا الیہ راجعون آپ کی تربت گاؤں کے قبرستان میں ہے۔
آپ کا حلیہ مبارک کچھ اس طرح تھا لمبا قد و قامت موٹا جسم یعنی فٹ باڈی نہایت ہی چست ، بارعب چہرہ ، گھنی داڑھی ، پتلی مونچھ ،کڑک آواز، وسیع ہتھیلیاں ، لمبے قدم ،
آپ اکثر سفید کرتا دھوتی اور ٹوپی ملبوس کیا کرتے تھے اورایک رومال یعنی سندھیانہ لباس اور پاؤں میں اکثر چمڑے کی چوتی رکھا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ آپ کی بے حساب مغفرت فرمائے اور ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چل کر دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔