سوشل میڈیا، جس طرح اوپن پلیٹ فارم ہے، ویسے ہی آپ کی شخصیت کا مظہر بھی ہے۔
اوپن پلیٹ فارم سے مراد، یہاں کی ہر چیز جیسے آپ کے حق میں جا سکتی ہے، ویسے ہی کسی وقت آپ کے خلاف مضبوط حجت بھی بن سکتی ہے اور اس بابت یہ غلط فہمی بھی نکال دینی چاہیے کہ ہم نے ایک مرتبہ جو چیز پوسٹ کی ہے، وہ اسکرین شاٹ یا دوسرے تکنیکی وسائل کے ذریعے آف لائن محفوظ نہیں کر لی گئی ہے
اور
شخصیت کا مظہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معاصر دنیا کے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے لیے آپ کی ہستی صرف اسی قدر ہنستی کھیلتی، یا علمی و فکری، یا سطحی اور تہہ دار ہے، جتنی وہ سوشل میڈیا کی معرفت جانتے ہیں، کیوں کہ اس تکنیکی اسکرپٹ یا اسکرین سے زیادہ انھیں آپ کی شخصیت کے ابجد نہیں معلوم اور جب تک آپ خود نہ چاہیں، عموماً وہ اس سے زیادہ آپ کو زمینی سطح سے جاننے سمجھنے کے روادار بھی نہیں
گویا
یہ دنیا ایک مستقل دنیا ہے، جسے آپ اپنی مرضی سے بناتے یا بگاڑتے ہیں اور جہاں اپنے عیب و ہنر کے آپ خود آئینہ بھی ہیں اور آئینہ ساز بھی۔
یعنی
اس نئے بازار میں سب کچھ آپ پر منحصر ہے، چاہیں تو آپ کی پیش کش ایک گلیمر پسند اور ہوا ہوائی شخصیت کے طور پر ہو سکتی ہے، جسے صرف اپنے چہرے بشرے کے خد و خال پیش کرنے اور اپنی مصنوعی نمائش میں مزہ آتا ہے
اور
چاہیں تو یہاں سے ایک نئے انقلاب کی آہٹ بھی سن سکتے ہیں، وہ انقلاب جس کے محرک آپ ہوں، ایسے محرک جسے اپنی اس تحریک میں زمین سے کہیں کم جفا کشیوں کا سامنا کرنا پڑے
لطف
کی بات یہ ہے کہ ان پلیٹ فارمز کی بنیادی تھیم ہی گویا اس بات پر مبنی ہے کہ یہاں ہر خیال کو اس کے ہم نوا مل ہی جاتے ہیں
اگر
آپ کو اپنے منجمد کمنٹ باکس میں صرف اپنے ستائشی کلمات پسند ہیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ تا عمر "سبحان اللہ، ماشاء اللہ اور واہ کیا کہنے” والے روایتی "داد ویروں” کی کمی نہیں کھلے گی، بے چارے اپنی زندگی کی جمع پونجی ہتھیلی پر لیے یہ کام کرنے کے لیے ہر وقت پرعزم اور تازہ دم ملیں گے
اور
اگر آپ وہ پاگل ہیں، جسے صرف اپنے ذوق جنوں سے کام ہے تو یاد رکھیے مصر کا انقلاب فیس بک سے آیا تھا
اور
اگر آپ مفکر ہیں تو شکر ادا کیجیے کہ ان سہولتوں نے آپ کے افکار کی ترسیل اور ہم خیال احباب سے جڑاؤ کے راستے پہلے سے کہیں سہل کر دیے ہیں
اس
لیے ہر آڑے ترچھے خیال/ فکر/ نظریے کو اس سمندر میں پھینکنے سے پہلے خوب تولیے اور بہت بلکہ بہت زیادہ سوچ سمجھ کے بولیے
کیوں کہ
حاشیہ خیال سے گزرنے والی ہر فکر محفوظ کرنے اور ہر محفوظ کی ہوئی بات دوسروں تک پہنچانے کے لائق نہیں ہوتی، قطعاً نہیں ہوتی
مدت
ہوئی یہ خیال خاطر ستاتا رہتا ہے اور اس وقت تو گویا کچوکے لگاتا ہے جب کتنی ہی گراں مایہ شخصیات ہیں، جن کے فکر و فن کا لوہا مانا جا سکتا ہے اور وہ خود کو امر بنا سکتے ہیں لیکن وہ جانے کس مصلحت کی دھن میں خود کو فضولیات کی نذر کیے ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے ان مباحث کو حل کیے بغیر آں جہانی نہ بننے کی قسم اٹھا رکھی ہو، جنھیں امت کی ہزار اٹھا پٹک گزشتہ چودہ صدیوں میں حل نہ کر سکی یا پھر اتنے بڑے ملک کے کسی خانچے میں منعقد کسی چھوٹی سی بے شوق مجلس کے بے ذوق سے بیانیے پر میثاق مدینہ سی گرم گفتاری کرتے ہیں۔
-خدا بخشے- اقبال ٹھیک ہی کہتا تھا:
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
ازقلم: خالد ایوب مصباحی شیرانی
24/ نومبر 2024- اتوار