چند روز قبل سنبھل ضلع عدالت میں ایک عرضی دائر کی جاتی ہے جس میں سنبھل شاہی جامع مسجد کو لے کر مندر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ، جسے ضلع عدالت فوری سنوائی کے لیے قبول کرتی ہے۔
اور آناً فاناً میں یک طرفہ سنوائی کے بعد عرضی داخل کرنے والے وکیل وشنو جین کو سروے ٹیم کا حصہ بنا کر احاطۂ مسجد کے سروے اور 29 نومبر کو رپورٹ سبمٹ کرنے کا حکم دیتی ہے۔
اتر پردیش کے ضمنی انتخابات سے ایک رات پہلے بھاری پولیس افسران کی موجودگی میں دو گھنٹے تک سروے کیا جاتا ہے ، جس میں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔
23 نومبر کو نتائج کے اعلان کے بعد پھر سے 24 نومبر کو صبح صبح دوبارہ سروے کے لیے سروے ٹیم پہنچتی ہے ، جس میں سروے ٹیم کے ساتھ کچھ شرپسند عناصر بمعیتِ وکیل وشنو جین "جے شری رام” کے نعرے کے ساتھ سروے کے لیے جاتا ہے۔
جس کے بعد علاقائی لوگوں اور محکمۂ پولیس کے درمیان ٹکراؤ جیسی حالت ہونے پر پولیس افسران کی طرف سے ‘لاٹھی چارج’ ‘آنسو گیس’ کے گولے داغے جاتے ہیں اس کے بعد پتھراؤ کی بھی خبریں آتی ہیں۔
معاملہ مزید بڑھ گیا جب سروے کی مخالفت کرنے والوں پر پولیس کی طرف سے گولی باری میں تقریباً دس سے زائد افراد کے ہاتھوں پیروں میں گولیاں لگی اور تین سے زائد نواجوان جاں بحق ہوگئے ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون.
حکمراں جماعت کی تو خیر سرپرستی ہی حاصل ہے لیکن ان مظالم کے خلاف پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن کے دعویدار نام نہاد "محبت کی دوکان” والے راہل گاندھی ، مسلم مسیحائی کا دم بھرنے والے اکھیلیش یادو (ٹوئیٹ کیا لیکن زمینی سطح پر کچھ نہیں) ، شرد پوار ، اروند کیجریوال ، نئے نئے سیکولر بنے ادھو ٹھاکرے سمیت تمام بڑے لیڈران کی خاموشی جبر و ستم کی خاموش حمایت اور ظالم کا ساتھ دینے جیسا ہی ہے۔
کس کا یہ سب کیا دھرا ہے سچ بولو !
شہر کا منظر بول رہا ہے سچ بولو !
شاہی جامع مسجد سنبھل۔تاریخی حقائق
لوگوں میں مشہور ہے کہ ظہیر الدین بابر نے یہ مسجد بنوائی تھی جبکہ قدیم آثار و تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ بابر فتح یاب ہو کر 9 ذی الحجہ 943ھ کو کول اور سنبھل کے لیے روانہ ہوا ۔ سنبھل سیر و تفریح کے لیے موزوں اور جنگی لحاظ سے ایک محفوظ جگہ تھی۔
بابر نے سنبھل کے مختصر دورانِ قیام میں ایک عالی شان جامع مسجد کی مرمت کرائی۔اگرچہ کتبات تعمیر کی خبر دیتے ہیں ۔ چنانچہ اس کے کتباتِ تاریخ شاہد ہیں ۔
افتادہ زمین 943 ھ
(احسن التواریخ۔گلشن ابراہیمی)
اس مرمت و تعمیر کے قضیے پر صاحبِ "تاریخِ سنبھل یعنی مصباح التواریخ” نے لکھا ہے کہ:-
صاحبِ "احسن التواریخ” صاحبِ تاریخِ "امروہہ” ، صاحب کتاب سنبھل سروے نے بابر کی تعمیر لکھا ہے۔
مؤرخین کا مرمت کو تعمیر سے تعبیر کرنا عوام و خواص میں مقبول و مشہور ہوا ۔ اور یہی قریب تر و قرین قیاس ہے ۔
جیسا کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کے چالیس سال بعد کی ۔ حالانکہ مشہور یہ ہے بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی بلکہ مرمت یعنی تعمیر ثانی کی جس کو تعمیر سے تعبیر کیا گیا۔ اور جیسا کہ مشہور ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام نے کی جبکہ ان دونوں حضرات تعمیر ثانی کی اور اول تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی ہے۔
مزید یہ کہ یہ تعمیر طرز مغلیہ میں نہیں ہے البتہ بابر نے اپنی آمد پر مزید کام کرکے اسے زینت بخشی اور تکمیل کی جیسا کہ رستم خاں دکنی جو شاہ جہاں کے عہد سے 25 سال تک گورنر رہے ۔ انہوں نے بھی مسجد کی مرمت کرائی اور مشرقی بڑا دروازہ بھی انہی کی تعمیر کردہ یادگار ہے۔
گویا مغل حکمراں ظہیر الدین بابر نے شاہی جامع مسجد سنبھل کی مرمت کرائی اور اس عظیم جامع مسجد کی تعمیر کا سہرا شاہ تغلق کے سر جاتا ہے جنہوں نے 772ھ میں اس کی تعمیر کرائی۔
(تاریخ سنبھل)
اب چونکہ تعمیراتی نہ سہی مرمت ہی میں بابر کا نام آگیا لہذا فتنہ پرور افراد کو موقع مل گیا اور اس عظیم تاریخی مسجد میں بھی مندر کا دعویٰ کر بیٹھے اور یہ سب غنڈہ گردی تب ہو رہی ہے جب Worship act 1991 قانونِ ہند کا حصہ ہے ۔
ظلم و جبر کی آندھی میں قانون ہمارا اجالا ہے
حق کب استعمال کروگے ؟ کب بولوگے ؟ کب بولوگے ؟
تحریر: ابن التہذیب محمد آصفؔ نوری
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
asifrazanoori0@gmail.com
24/11/2024