خادم حسین رضوی کی شخصیت
خادم حسین رضوی کی شخصیت ایک صاف ستھری، پُر عزم اور مضبوط رہنما کی تھی۔ وہ عوام کے درمیان ایک سادہ اور مخلص شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی زبان میں جو سادگی تھی، وہ لوگوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔ ان کی تقاریر میں جو جوش اور جذبہ تھا، وہ لوگوں میں ایک نیا حوصلہ اور جذبہ پیدا کرتا تھا۔ ان کی باتوں میں ایک خاص اثر تھا جو لوگوں کو اپنی فکر کی طرف راغب کرتا تھا۔آپ کی شخصیت میں نرم دلی اور سخت عقیدہ کا حسین امتزاج تھا۔ وہ کسی بھی قسم کے مذہبی یا قومی مسائل پر اپنی رائے دینے میں بالکل واضح اور بے خوف تھے۔ ان کی ہر بات میں اسلام کی محبت اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی جدو جہد کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔
خادم حسین رضوی اور دین کے لیے ان کی خدمات
آپ ایک مشہور و معروف عالم دین، محدث، اور سیاسی رہنما تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو اسلام کے عظیم اصولوں کی ترویج اور دفاع کے لیے وقف کر دیا تھا خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو صوبہ پنجاب کے شہر اٹک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حافظ محمد حسین تھا، جو ایک معروف عالم دین تھے اور ان کے گھر میں دینی تعلیم کا ماحول تھا۔ خادم حسین رضوی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسے سے حاصل کی اور پھر آپ چار سال پڑھنے کے بعد حفظِ قرآن کی طرف مائل ہوئے اور آپ نے آٹھ برس کی عمر میں حفظِ قرآن ضلع جھلم سے مکمل کیا۔
پھر مختلف دینی مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے وقت کے بڑے علماء سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم میں اضافہ کیا۔ انہوں نے پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا اور آپ بچپن سے ہی بہت دانشمند تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے گھر میں سب لوگ تعلیم یافتہ اور سنتِ نبوی پر عمل کرنے والے تھے، اسی وجہ سے انہیں بچپن سے ہی پڑھائی کا شوق تھا۔پھر حفظِ قرآن مکمل ہونے کے بعد آپ نے 1979 میں قرأت کورس کے سلسلے میں مدرسہ جامعہ رضویہ احسن القرآن میں داخلہ لیا اور آپ نے وہاں سے قاری کا خطاب حاصل کیا۔ آپ نے تقریباً پندرہ سال کی زندگی میں حافظ، عالم اور قاری کی مکمل تعلیم حاصل کی۔
درس و تدریس
آپ نے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد 1990 میں جامعہ نظامیہ رضویہ میں علمِ صرف کا درس دینا شروع کیا اور آپ نے اس مدرسے میں تقریباً 25 سال تک درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا۔ ان پچیس سالہ زندگی میں آپ نے 1000 سے زائد طلباء کو عربی گرامر پڑھائی اور سنن ابو داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور شرح الہدایہ جیسی کتابیں بھی پڑھائیں۔ اس کے علاوہ، آپ نے 16 سالہ زندگی میں حدیث کی تعلیم بھی دی اور تقریباً 1500 سے زائد طلباء کو حدیث کی تعلیم دی اور شیخ الحدیث کا خطاب بھی حاصل کیا۔
دین مطہرہ کے دفاع میں خادم حسین رضوی کی جدوجہد
آپ نے سب سے بڑی شناخت ان کے اسلام کے لیے پختہ عقیدہ اور اس کے دفاع میں ان کی جدوجہد کے طور پر سامنے آئی۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع اور اسلام کی صحیح تعلیمات کی ترویج کے لیے سرگرم رہے۔ ان کی زندگی کا مقصد لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا اور ان کے اندر اسلامی شعور پیدا کرنا تھا۔
خادم حسین رضوی نے مختلف مذہبی اور سیاسی مسائل پر ہمیشہ اسلام کے موقف کی وضاحت کی۔ انہوں نے متعدد مواقع پر اسلام کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کو صحیح راہ پر چلنے کی دعوت دی۔ ان کی تبلیغ کا اہم مقصد مسلمانوں میں اسلامی شعور پیدا کرنا اور انہیں اپنی شناخت کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔
تحفظِ ختم نبوت کی تحریک
خادم حسین رضوی کی سب سے اہم اور مشہور جدوجہد وہ تحریک تھی جو انہوں نے ختم نبوت کے قانون کی حمایت میں شروع کی۔ 2017 میں ایک وفاقی وزیر کے بیان کے بعد پاکستان میں ختم نبوت کے قانون کے حوالے سے شدید بحث چھڑ گئی۔ خادم حسین رضوی نے اس معاملے میں کھل کر اپنا موقف پیش کیا اور پورے پاکستان میں ختم نبوت کے قانون کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
انہوں نے اس تحریک کو "تحفظِ ختم نبوت تحریک” کا نام دیا اور اس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ ان کے اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی اور ختم نبوت کے قانون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے امکانات ختم ہوگئے۔ خادم حسین رضوی کی قیادت میں ہونے والی اس تحریک نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں ختم نبوت کے قانون کی اہمیت اور اس کے تحفظ کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
سیاسی اور سماجی خدمات
خادم حسین رضوی کی سیاسی خدمات بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے 2015 میں "تحریک لبیک یا رسول اللہ” (TLYR) نامی سیاسی جماعت قائم کی، جو اسلام کے بنیادی اصولوں کی حمایت اور ان کے نفاذ کے لیے کام کر رہی تھی۔ اس جماعت نے خاص طور پر ختم نبوت، اسلام کی تعلیمات، اور پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے لیے کام کیا۔
تحریک لبیک یا رسول اللہ نے نہ صرف اسلام کے حوالے سے بلکہ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے لیے بھی آواز اٹھائی۔ ان کی سیاسی جماعت نے پاکستان کی سیاست میں ایک نیا رنگ ڈالا اور عوام کے دلوں میں ایک نئی امید پیدا کی۔ ان کی سیاست کا بنیادی مقصد اسلام کے اصولوں کو ملکی قوانین میں شامل کرنا اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ تھا۔
مختلف زبانوں کی مہارت اور اس میں عبور
آپ کی مادری زبان پنجابی تھی، تاہم انہیں وطن عزیز کی قومی زبان اُردو کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ ان کی جوش اور ولولے سے بھر پور تقاریر ان چاروں زبانوں کے حسین امتزاج پر مشتمل ہوا کرتیں ، آپ ﷺ جہاں پنجابی زبان میں اپنے منفرد اور جلالی انداز میں عظمت اسلام کا ذکر کرتے ، وہیں اپنے موقف کی تائید میں آیات قرآنیہ اور عربی احادیث بھی پڑھ کر سنایا کرتے، اور ساتھ ہی ساتھ امام بوصیری ، شیخ سعدی، امام اہل سنت اعلی حضرت بریلوی، اور قلندر لاہوری ڈاکٹر اقبال سیم کے عربی، فارسی اور اردو اشعار کے ذریعے ، ایک سماں باندھ دیا کرتے، اور اپنے سامعین کے جوش و جذبے میں اتنی کڑکتی بجلیاں بھر دیتے، اور ان کے لہو کواس قدر گر ما دیتے، کہ ہر طرف سے یہی صدائیں بلند ہونے لگتیں
آپ کی وفات
آپ 19 نومبر 2020 کو اس دنیائے فانی سے پردہ فرما گئے اور عاشقِ رسول حضرت امام احمد رضا خان کے دیوانوں کے لیے یہ دن بہت ہی الم ناک اور غم کا دن تھا، کیونکہ اس دن ایک نور سے منور ستارہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اور آپ کی جو خدمات تھیں، وہ ابھی بھی ہم عاشقِ رسول کے لیے فائدہ بخش ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک رہیں گی۔
لیے محبت و عقیدت کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ خادم حسین رضوی کی شخصیت اور ان کی خدمات ہمیشہ پاکستانی قوم کے لیے ایک روشن رہنمائی کی حیثیت رکھیں گی۔
از قلم: محمد طارق اطہر حسین
جامعہ دارالہدیٰ اسلامیہ، کیرالہ