"اعلیٰ حضرت امام عشق ومحبت مجدد دین و ملت_”امام احمدرضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں ،،،
"نعت خوانی کو پیشہ بنانا حرام و ناجائز ہے -حمد ونعت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تقرب اور اظہار محبت کا ذریعہ ہے -طاعات میں صرف ان چیزوں کا اجارہ جائز ہے جن کے نہ ہو نے سے دین میں حرج واقع ہو -جیسے امامت ومؤذنی ،تعلیم قرآن، فقہ وحدیث ،وتفسیر وغیرہ -نعت خوانی کے ذریعے حاصل ہونے والی اجرت ناجائز وحرام ہے -اور ایسی نعت خوانی کرنے اور کروانے سے ثواب تو کجا الٹا گناہ ہوگا -(فتاوی رضویہ؛ج: ٢٣، ص : ٦٢٤)
"اعلیٰ حضرت کے اس فتوے کےمطابق یہ حقیقت عیاں وبیاں ہے جو میں بلا جھجک بیان کرنےجارہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ: آج کل کے زیادہ تر شعراء و نعت خواں حرام خوری اور گناہ کررہے ہیں: –
"کیونکہ دور حاضر کے مشہور ونامور نعت خواں نذرانہ نہیں بلکہ "(سٹہ باندھتے ہیں)فیس طے کرتے ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ پروگرام میں آنے سے قبل ہی طے شدہ فیس” کی رقم اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا لیتے ہیں،
کیا ایسا کرنا عند الشرع جائز ہوسکتا ہے؟
"اور یہ مرض کوئی نیانہیں ہے بلکہ یہ بیماری تو برسوں سے چلی آ رہی ہے: لیکن شاید "ہمارے علماء دین اور مفتیان کرام نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی – اگر علماء دین ومفتیان کرام شروعات سے ہی توجہ دئیے ہوتے اور "نعت خواں کی اس غیر شرعی "حرکت پر قدغن لگادئیے ہوتے تو آج ہمارے دینی اور خالص مذہبی جلسے بدنظمی کا شکار ہرگز نہ ہوتے –
اور آج کل کے گویا نعت خواں جس غیر مہذب انداز اور غیر شرعی اداؤں کے ساتھ کلام نعت پڑھتے ہیں اس کو بھی سختی روکا جانا چاہئے ،،،،
اوربھاری بھاری نذرانہ طے کرنے کے سلسلے میں ،میں فقط نعت خوانوں کو ہی مورد الزام نہیں ٹہرارہا ہوں بلکہ اس برے فعل اور حرام خوری میں وہ خطبا ء بھی پورے طور پر شامل ہیں جو بھاری اور خطیر رقموں کا بطور نذرانہ ڈیمانڈ کرتے ہیں اور جلسوں میں تقریر کرنے کے لئے جاتے ہیں ،
اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ "ان حرام خور "خطباء وشعراء "اور "نعت خوانوں کو اپنے جلسوں میں ہرگز نہ مدعو کیا جائے ،ہاں اگر بغیر طے کئے ہوئے آجائیں تو فبھا، ٹھیک ہے چلے گا،،
خطبا ء وشعراء کے لئے”خلوص وللہیت اورآداب محبت کے ساتھ_”نعت پاک پڑھنا یا تقریر کرنا عبادت کا کام ہےاور باعثِ اجر وثواب ہے اور عبادت کے لئے فیس مقرر کرنا غضب وجلال باری تعالیٰ کو دعوت دینا ہے اور جس جلسے والے ایسے پیشہ ور "خطباء وشعراء کو ان کی منھ مانگی فیس پر بلاتے ہیں وہ بھی مجرم ہیں کیونکہ گناہ کے کاموں میں کسی بھی نوعیت سے شامل ہونا بھی گناہ ہے:
اور گناہ کا کام دیکھ کر جو خاموش رہے اور نفرت وبیزاری کا اظہار تک نہ کرے تو وہ بھی گنہگار ہوتا ہے ،
یہ ساری باتیں "حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے فتویٰ کی روشنی میں تحریر کررہا ہوں –
اور طے شدہ نذرانہ یا فیس لینے کا ماحول زیادہ ان لوگوں نے بنایا ہے جو اپنے آپ کو "ناشر مسلک اعلیٰ حضرت ،”محافظ مسلک اعلیٰ حضرت ،”علمبردارمسلک اعلیٰ حضرت کہلواتے اور اشتہارات میں چھپواتے ہیں،
"صاف بات یہ ہے کہ جو خطیب یا شاعر ونعت خواں نذرانہ طے نہ کرے اس کو بلائیں،شوق سے بلائیں اور اجرت نہیں بلکہ بطور ہدیہ ونذرانہ اتنا ضرور اس کی خدمت میں پیش کردیں کہ اس کے آمد ورفت میں آسانی ہو اور وہ خوش ہوکر جائے اس حد تک تو مباح ہے ،اور جو طے کرتے ہیں ان کو گھاس بھی نہ ڈالیں:
اورکیا وعظ وبیان اور نعت خوانی کے لئے قرب وجوار اور علاقائی خطباء وشعراء کافی نہیں ہیں-؟ یا دور والوں کو بلائیں گے تبھی جلسہ کامیاب ہوگا -؟ علاقہ و جوار میں بھی تو اچھے اچھے خطیب اور نعت خواں ہوتے ہیں اور وہ بھی باہر پروگراموں میں جاتے ہیں اور ان کو بھی لوگ اچھی نظر سے دیکھتے اور قدر وعزت کرتے ہیں ہاں جس علاقے میں علماء و نعت خواں نہ ہوں وہاں تو مجبوری ہے کہ باہر سے بلانا ہی پڑے گا،
یہ بھی صحیح ہے کہ اگر دور سے آنے والوں کے ذریعہ دین کا کوئی کام ہوجائے اور مسلم معاشرے میں سدھار پیدا ہو جائے اور لوگ تعلیمات رسول پر عمل پیرا ہوجائیں تو ضرور بلائیں مگر نذرانے کی کوئی بات نہ کریں بلکہ جو مناسب ہو وہ خود ہی سمجھ کر دیدیں ،
نہیں تو پھر علاقائی "علماء و شعراء کو ترجیح دیں کیونکہ وعظ وبیان اور نعت رسول مقبول سننا اعمال حسنہ میں سے ہے ،
اور تقریروں میں خدا ورسول اور دین کی باتیں آپ کے قرب وجوار کے "علماء بھی بتاتے ہیں اور نعت خواں حضرات: آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی شان میں مدح و سرائی کرتے ہیں اور یہی سننا کار ثواب اور عبادت ہے۔
"یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اپنے علاقہ و جوار اور قریبی علماء کرام و شعراء کو لوگ نظر انداز کر کے دور دور سے بلاتے ہیں انہیں بھاری فیس بھی دیتے ہیں اور انہیں پر نوٹوں کی بوچھار بھی کرتے ہیں ،
جو اخلاقی اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے،کہ کسی پر تو روپئے کا انبار لگادیں اور کچھ لوگ بیچارے اسٹیج پر بیٹھ کر دیکھتے رہیں۔
"الحاصل اعلی حضرت کے مسلک پر عمل کرنے والے اگر صحیح معنوں میں مسلک کے پیرو کار ہیں تو ان کو "اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ پر عمل کرنا ضروری ہے ورنہ نام نہاد "مسلک اعلیٰ حضرت کے پیرو بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ،اعلی حضرت کے مذکورہ بالا فتویٰ کے مطابق
"نعت خوانی کی اجرت لینا ناجائز وحرام ہے تو اس فتویٰ پر عمل کیوں نہیں -؟
"آجکل جس کو اعلیٰ حضرت نے حرام و ناجائز لکھا ہے اسی کو لوگوں نے پیشہ بنالیا ہے کتنی بری بات ہے ،،،!
آخر میں ایک بات کی جانب مزید توجہ دلانا ہے کہ ،
جس شاعر یا نعت خواں کو مدعو کریں اس سے یہ اقرار کروا لیں کہ پروگرام کے اختتام تک اسٹیج پر براجمان رہنا ہوگا کیونکہ میں نے بہت سے پروگراموں میں دیکھا ہے کہ جب تک کسی نعت خواں کا نمبر نہیں آتا ہے جب تک وہ اسٹیج پر جم کر بیٹھتا ہے اور جیسے ہی وہ پڑھ کر فارغ ہوجاتا ہے تو فوراً وہاں سے بھاگنے کے لئے بیتاب ہوجاتا ہے اور منتظمین جلسہ سے کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے نذرانہ لے کر نکل جاتا ہے ،
اور جب آخر میں خطباء کی باری آتی ہے تو اسٹیج خالی خالی نظر آنے لگتا ہے جو بہت ہی غلط بات ہے،
کیونکہ جب اسٹیج کے لوگ کھسک جاتے ہیں تو دھیرے دھیرے سامعین جانے لگتے ہیں اور نوبت یہ ہوتی ہے پھر چند گنے چنے لوگ رہ جاتے ہیں: اور یہ مذہبی جلسہ کے مزاج کے خلاف ہے اس لئے اس افر تفری کا خاتمہ کرنا بھی ضروری وناگزیر ہے ،،،،
"اللہ تعالیٰ افراد اہلسنت کو مسلک اعلیٰ حضرت(مسلک اہل سنت) پر خلوص دل سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ حبیبہ النبی الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
از خامہ: محمد طاہرالقادری کلیم فیضی بستوی
سربراہ اعلیٰ مدرسہ انوار الاسلام قصبہ سکندر پور ضلع بستی یوپی