ہم جسے آج "عالمی برادری” کا نام دیتے ہیں، وہ انصاف، مساوات یا انسانی حقوق کے کسی عالمی اصول پر قائم نہیں، بلکہ سراسر طاقت کے گھمنڈ، سیاسی مصلحتوں اور معاشی مفادات کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہ نظام ان عالمی اداروں اور معاہدوں کا بھیانک مذاق ہے، جن کا قیام دنیا میں امن، توازن اور انسانی فلاح کے لیے عمل میں آیا تھا۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ طاقتور ممالک نہ صرف قانون سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں بلکہ اپنے ظلم کو بھی "امن قائم کرنے کی کوشش” قرار دے کر عالمی ہمدردی حاصل کر لیتے ہیں۔
ماضی کی متعدد مثالیں اور حالیہ واقعات اس حقیقت کو پوری طرح بے نقاب کر چکے ہیں۔ ویتنام سے لے کر افغانستان اور عراق تک، امریکہ جیسے ملکوں نے جن بربریتوں کو "دہشت گردی کے خلاف جنگ” یا "جمہوریت کے فروغ” کا نام دیا، ان کا مقصد صرف سیاسی برتری، قدرتی وسائل پر قبضہ اور عالمی اثر و رسوخ کی توسیع تھا۔ لاکھوں انسان مارے گئے، معیشتیں تباہ ہوئیں، سماجی ڈھانچے بکھر گئے، مگر عالمی برادری یا تو خاموش رہی یا بے معنی بیانات پر اکتفا کرتی رہی۔
آج کی دنیا میں سب سے بھیانک مظہر غزہ میں جاری ظلم ہے، جہاں اسرائیلی ریاست نے ہزاروں نہتے فلسطینیوں کو بمباری کا نشانہ بنایا، بچوں، عورتوں، مریضوں، حتیٰ کہ ہسپتالوں اور عبادت گاہوں تک کو نہیں بخشا۔ عالمی میڈیا کی تصاویر، اقوام متحدہ کے ادارے OCHA کی رپورٹس، اور درجنوں غیر جانبدار تنظیموں کی تحقیقاتی فائلیں اس سنگین انسانی بحران کو چیخ چیخ کر بیان کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود نہ صرف عالمی طاقتیں خاموش ہیں، بلکہ کئی ایک تو اسرائیل کی کھلی پشت پناہی بھی کر رہی ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے نام پر قائم ادارے بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ، جسے دنیا کی عدالت سمجھا جاتا ہے، خود طاقتور ممالک کی جاگیر بن چکی ہے۔ سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت اور ویٹو پاور جیسے اختیارات نے اس ادارے کو انصاف کے بجائے سیاسی مفادات کا محافظ بنا دیا ہے۔ ایک قرارداد، خواہ کتنی ہی اصولی کیوں نہ ہو، اگر کسی طاقتور ملک کے مفاد سے ٹکرا جائے، تو وہ ویٹو کا استعمال کرکے اسے ناکام کر دیتا ہے اور دنیا خاموشی سے یہ تماشا دیکھتی ہے۔
ایران کی دفاعی حکمت عملی، یمن میں حوثیوں کی جوابی کارروائیاں، یا فلسطینیوں کی مزاحمت ــ سبھی کو بین الاقوامی میڈیا اور حکومتیں "انتہا پسندی”، "دہشت گردی” یا "عالمی امن کے لیے خطرہ” قرار دیتی ہیں۔ لیکن جب یہی عالمی طاقتیں کسی ملک پر حملہ آور ہوتی ہیں، وہاں کی حکومت گرا کر تباہی مچا دیتی ہیں، تو اسے "امن بحالی” کا مشن قرار دیا جاتا ہے۔ لیبیا، شام، افغانستان اور عراق اس رویے کے عبرت ناک نمونے ہیں۔
دلچسپ اور المناک پہلو یہ ہے کہ یہی عالمی ضمیر بعض مخصوص واقعات پر فوراً بیدار ہو جاتا ہے۔ یوکرین پر روسی حملہ ہو تو فوراً مذمتی قراردادیں، اقتصادی پابندیاں، ہنگامی اجلاس، اور جنگی امداد شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن جب روہنگیا، فلسطین،یمن یا عراق میں مسلمان خون میں نہائے جاتے ہیں، تو زبانیں گنگ، آنکھیں بند، اور دل سنگین ہو جاتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت کی روح پر حملہ ہے۔
عالمی نظام کی یہ ستم ظریفی صرف سیاست دانوں یا اداروں کی خامی نہیں بلکہ عوامی بے حسی اور دانشورانہ خاموشی بھی اس جرم میں شریک ہے۔ جب تک عالمی میڈیا، عوامی رائے اور دانشور طبقہ طاقت کے جبر کے خلاف مؤثر آواز نہیں اٹھائے گا، یہ نظام مزید بے رحم ہوتا جائے گا۔ خاموشی صرف ظلم کی تائید نہیں بلکہ مستقبل کی بربادی کی ضمانت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اپنے اصولوں کی طرف رجوع کریں۔ ویٹو پاور کے ناجائز استعمال پر ضابطہ بنایا جائے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی خواہ کسی بھی ملک سے ہو، اس پر بلا امتیاز کارروائی ہو۔ ترقی پذیر اور کمزور ممالک کو چاہیے کہ وہ باہم اتحاد قائم کریں، اپنی آواز کو دبنے نہ دیں، اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اگر ہم نے اس وقت بھی سچ بولنے سے گریز کیا، تو آنے والا وقت شاید ہم سے ہماری خاموشی کا بھی حساب لے۔ انسانی تاریخ کے کاندھوں پر ایک سنگین سوال رکھا جا چکا ہے: کیا ہم صرف طاقتور کے لیے زندہ انصاف چاہتے ہیں یا واقعی ایک ایسا عالمی نظام، جو ہر انسان کے لیے یکساں ہو بلا رنگ، نسل، مذہب اور جغرافیہ؟
تحریر: غلام جیلانی قمر ، خیرا،بانکا (بہار)