مجاہدین آزادی یوم آزادی و یوم جمہوریہ

وہ امام فلسفہ وہ نازش علم و سخن

۱۹ویں صدی کے نصف میں بر صغیر ہندو پاک میں بہت سی ایسی شخصیات موجود تھیں جو علم و فضل اور فکر و تدبر کے جوہر بکھیر رہی تھی ان میں ایک ممتاز نام قائد انقلاب ، امام الحکمہ ، ماہر علوم عقلیہ و نقلیہ ، فاضل جلیل حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کا ہے ۔

ولادت و سلسلۂ نسب:
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی ١٢ ہجری مطابق ١٧٩٧ عیسوی میں خیر آباد ( موجودہ ضلع سیتا پور ، یو پی ) میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد حضرت علامہ فضل امام خیر آبادی معاصرین علما و فضلا میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ کے علم و فصل کے اعتراف میں بادشاہ وقت نے آپ کو ‘ صدر الصدور ‘ دہلی مقرر کیا تھا ۔ دہلی میں اگر ایک طرف منقولات میں حضرت علامہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا ڈنکا بج رہا تھا تو دوسری طرف معقولات میں حضرت علامہ فضل امام خیرآبادی کا سکہ چل رہا تھا اور تشنگان علم و فن ان دونوں دریاؤں سے سیراب ہو رہے تھے ۔
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کا سلسلۂ نسب یوں ہے :
فضل حق بن مولانا فضل امام بن شیخ محمد ارشد بن حافظ محمد صالح بن ملا عبدالواجد بن عبدالماجد بن قاضی صدر الدین بن قاضی اسماعیل ہرگامی بن قاضی عماد الدین بدایونی بن شیخ ارزانی بدایونی بن شیخ منور بن شیخ خطیر الملک بن شیخ سالار شام بن شیخ وجیہ الملک بن شیخ بہاؤ الدین بن شیر الملک شاہ ایران بن شاہ عطاء الملک بن ملک بادشاہ بن حاکم بن عادل بن تائروں بن جرجیس بن احمد نامدار بن محمد شہریار بن محمد عثمان بن دامان بن ہمایوں بن قریش بن سلیمان بن عفان بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن امیر المومنین خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔
اس طرح ۳۳ واسطوں سے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کا سلسلۂ نسب حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سے مل جاتا ہے ۔ اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کے مورث اعلیٰ شیر الملک ابن شاہ عطاء الملک کے دو صاحبزادگان علامہ شمس الدین اور علامہ بہاؤ الدین ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے ، حضرت علامہ شمس الدین مفتی رہتک ہوئے ، حضرت شاہ ولی اللہ بن شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی انہیں کی اولاد میں سے ہیں ، جب کہ حضرت علامہ بہاؤ الدین نے بدایوں کی مسند افتا سنبھالی ، انہیں کی چھٹویں پشت میں قاضی عماد الدین تحصیل علم کی خاطر ہر گام پہنچے ، قاضی ہرگام نے شرافت و نجابت کو دیکھ کر اپنی دختر نیک اختر سے آپ کی شادی کر دی ، چنان چہ اس کے بعد آپ یہیں کے ہو کر رہ گئے اور انہیں کی چھٹویں نسل میں حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کے دادا علامہ شیخ محمد ارشد کی ولادت ہوئی جنہوں نے ہر گام کو چھوڑ کر خیر آباد میں سکونت اختیار کی ، انھوں نے دو شادیاں کیں اور ان کی دوسری زوجہ سے تین اولادیں ہوئیں : حضرت علامہ فضل امام ، مولانا محمد صالح اور بی بی عائشہ، پھر حضرت علامہ فضل امام کے گھر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کی شکل میں اللہ کا فضل و کرم ہوا ۔
تعلیم و تربیت:
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کا گھرانہ علم و فصل میں یکتائے روزگار تھا جس کا اندازہ آپ کے خاندانی حالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے آبا و اجداد نسلا بعد نسل مسند قضا و امامت پر تخت نشین رہے ۔ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں ، ہر طرف باکمال علما، فضلا ، محدثین ، مفسرین ، فقہا اور ادبا و شعرا کو دیکھا اور ان سے اکتساب فیض کیا ، بنیادی تعلیم کے حصول کے بعد حافظ محمد علی کی نگرانی میں محض ساڑھے چار ماہ کی قلیل مدت میں قرآن پاک حفظ کیا ، حضرت علامہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی سے درس حدیث لیا جب کہ فقہ کی تعلیم حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے حاصل کی اور علوم عقلیہ و فلسفہ والد ماجد حضرت علامہ فضل امام سے سیکھا اورمحض ۱۳ سال کی عمر میں مروجہ علوم عقلیہ اور نقلیہ سے فراغت حاصل کر لی ۔
ذہانت و فطانت:
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی بہت ذکی اور ذہین و فطین تھے ۔ آپ کی خداداد علمی صلاحیت و لیاقت کے سامنے حریف کے بڑے بڑے علما و فضلا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔ دو واقعات بطور تمثیل ملاحظہ ہوں :
” ہوا یوں کہ آپ کے فقہ کے استاد حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے جب شیعہ کی تردید میں تحفہ اثنا عشری تحریر فرمائی تو شیعان ہند کی طرح ایران میں بھی ہیجان پیدا ہوا ، ایران سے میر باقر داماد صاحب ‘ افق المبین ‘ کے خاندان کا مجتہد فریقین کی کتابیں لے کر شاہ صاحب سے مناظرہ کے لیے دہلی پہنچا ، خانقاہ میں داخل ہونے پر شاہ صاحب نے فرائض میزبانی ادا کرتے ہوئے قیام کے لیے مناسب جگہ تجویز فرمائی شام کو مولانا فضل حق حاضر ہوئے تو شاہ صاحب کو مصروف مہمان نوازی دیکھ کر کیفیت معلوم کی اور بعد نماز مغرب مجتہد صاحب کی خدمت میں پہنچے ، مجتہد صاحب نے پوچھا : میاں صاحبزادے کیا پڑھتے ہو ؟ عرض کیا : ” اشارات ” ، "شفا” اور "افق المبین ” وغیرہ دیکھتا ہوں ۔ مجتہد صاحب کو بڑی حیرت ہوئی اور افق المبین کی کسی عبارت کا مطلب پوچھ لیا ، علامہ فضل حق خیرآبادی نے ایسی مدلل تقریر کی کہ متعدد اعتراضات صاحب افق المبین پر کر گئے ، معزز مہمان نے اعتراضات کے جواب دہی کی کوشش کی تو ان کو جان چھڑانا اور بھی دو بھر ہو گیا ، جب خوب عاجز کر لیا تو اپنے شبہات کے ایسے انداز میں جوابات دیے کہ تمام ہمراہی علما بھی انگشت بہ دنداں ہو گئے ، آخر میں یہ بھی اظہار کر دیا کہ میں شاہ صاحب کا ادنیٰ شاگرد ہوں اور اظہار معذرت کے بعد رخصت ہو گئے ۔ علمائے ایران نے اندازہ کر لیا کہ جب خانقاہ کے بچوں کے علم و فضل کا یہ عالم ہے تو شیخ خانقاہ کا کیا حال ہوگا ۔ چنانچہ صبح کو جب خیریت مہمان کے لیے شاہ صاحب نے آدمی بھیجا تو پتہ چلا کہ مجتہد صاحب آخری شب میں دہلی سے روانہ ہو چکے ہیں ” ۔

۲۰۲۱ء میں حکومت ہند نے آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر ہندوستان کے مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حضرت علامہ فضل خیر آبادی کے مختصر احوال و کوائف کو بیان کیا ہے جس میں حضرت علامہ خیر آبادی کی تصنیف الثورۃ الہندیہ کے حوالے سے ایک واقعہ یوں نقل ہے : ” انڈمان نکو بار جیل کا سپرنٹنڈنٹ کپتان جان کول پوائز ہافٹن( John Colpoys Haughton ) نے ایک فارسی مخطوطہ ایک مولوی صاحب جو کہ قیدیوں میں شامل تھے ، کو تصحیح کی غرض سے سپرد کیا ، مولوی صاحب کو اس کی اصطلاح میں دشواریاں پیش آئیں تو انہوں نے مخطوطے کو تصحیح کے لیے حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کے حوالے کر دیا ، حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے اس کی تصحیح کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ اضافے بھی کیے اور حوالوں سے اسے مزین فرما دیا ، جب وہ مخطوطہ مولوی صاحب نے کپتان کو واپس کیا اور کپتان نے اس میں اضافے کے ساتھ حوالے بھی دیکھے تو بہت متاثر ہوا اور مولوی صاحب سے دریافت کرنے پر اسے حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کے بارے میں پتہ چلا ، وہ بھاگا بھاگا حضرت علامہ خیرآبادی کی خدمت میں آیا اور دیکھا کہ ایک ضعیف لاغر شخص سر پر ٹوکری اٹھائے ہوئے آ رہا ہے حضرت علامہ کی یہ حالت دیکھ کر اس کی انکھوں میں آنسو بھر آئے ، اس نے معافی مانگی اور اس کے بعد آپ کو خصوصی نگرانی میں رکھا”۔ اس واقعے سے حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کی ذہانت اور خداداد علمی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے کہ کتابیں نہ ہونے کے باوجود بھی آپ نے اس مخطوطے میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ حوالے سے بھی اسے مزین فرمایا۔

تدریسی خدمات:
تکمیل علم کے بعد حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے ۱۸۰۹ء میں اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا اور اواخر ۱۸۱۵ء میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہو گئے جس کا سلسلہ والد ماجد کے وصال ( ۱۸۲۹ ) تک جاری رہا ، اس کے بعد ۱۸۳۰ء میں نواب فیض محمد خان والی جھجر ( موجودہ صوبہ ہریانہ) نے قدردانی کے ساتھ آپ کو اپنے یہاں بلایا اور ۵۰۰ روپے ماہانہ نظرانہ پیش کرتے رہے ، جب حضرت علامہ فضل خیرآبادی جھجر کے لئے روانہ ہونے لگے تو بہادر شاہ ظفر نے اپنا ملبوس دوشالہ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کو اڑھایا اور آبدیدہ ہو کر کہا کہ چونکہ آپ جانے کو تیار ہیں ، اس لیے میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں کہ میں بھی اس کو منظور کروں مگر اللہ جانتا ہے ہے کہ لفظ ” وداع ” زبان پر لانا دشوار ہے ۔ مرزا غالب نے اپنے ایک خط میں بڑے مؤثر انداز میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے :
” بالجملہ بعد ازیں استغنا نواب فیض محمد خان ( رئیس جھجر) پانصد روپیہ برائے مصارف ماہانہ خدام مخدومی معین کرد ، خود خواند ، روز ے کہ مولوی فضل حق ازیں دیار رفت ، ولی عہد خسرو دہلی صاحب عالم مرزا ابو ظفر بہادر شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔دوشالۂ ملبوس خاص بدوش وے نہاد و آب در دیدہ گردانید و فرمود :
” ہر گاہ شما می گوید کی من رخصت می شوم ، مرا جز ایں کی بہ پذیرم ، گریز نیست ، اما ایزد دانا داند کہ لفظ وداع از دل بہ زبان نمی رسد الا بصد جر ثقیل "۔
جھجر میں علم و فضل کے جوہر بکھیرنے کے بعد حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے مہاراجہ الور ( راجپوتانہ) کی دعوت پر ریاست الور تشریف لے گئے پھر نواب ٹونک ( راجپوتانہ ) نواب رام پور ( روہیل کھنڈ ) کی دعوت پر ٹونک و رام پور کے تشنگان علم و فن کو اپنے علمی فیضان سے مستفیض کیا ، اس کے بعد ۱٨٤٨ ء میں لکھنؤ کے ” صدر الصدور ” اور "حضور تحصیل ” کے مہتمم بنائے گئے ، اس طرح حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے اپنے دریائے علم و فضل سے پورے بر صغیر کو سیراب کیا ۔
مشاہیر تلامذہ:
جیسا کہ ابھی سطور بالا میں مذکور ہوا کہ حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی مہاراجہ اور نوابوں کی دعوت پر مختلف مقامات پر علم و فضل کے جوہر لٹانے کے لیے تشریف لے گئے اور تشنگان علم و فن کی پیاس بجھائی جس سے آپ کے شاگردوں کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوئی ، ان میں چند مشہور تلامذہ کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :
۱۔ خلف رشید حضرت مولانا حکیم عبدالحق خیر آبادی (استاد حکیم سید برکات احمد ٹونکی )،
۲۔ مولانا ہدایت اللہ رامپوری ثم جون پوری ( استاد صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی مصنف بہار شریعت و مولانا سید سلیمان اشرف بہاری ثم علی گڑھی )،
۳۔ مولانا عبدالقادر بدایونی فرزند حضرت علامہ فضل رسول بدایونی ،
٤۔ مولانا عبدالعلی رامپوری ( امام احمد رضا کے استادِ علم ریاضی )،
۵۔ مولانا خیر الدین دہلوی ( مولانا ابوالکلام آزاد کے والد ماجد) ،
٦۔ مولانا قلندر علی زبیری ( استاد خواجہ الطاف حسین حالی )،
۷۔ مولانا فیض الحسن سہارن پوری ،
۸۔ مولانا ہدایت علی بریلوی ،
۹۔ مولانا محمد عبداللہ بلگرامی ،
۱۰۔ نواب یوسف علی خان رام پوری ،
۱۱۔ نواب کلب علی خان رام پوری وغیرہ ۔
تصانیف:
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے ٦٤ سالہ زندگی میں بے پناہ تدریسی اور سیاسی مصروفیات کے باوجود بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں ، ان میں سے کچھ حوادث زمانہ کی نذر ہو گئیں اور جو محفوظ رہ گئیں ان کے اسماء حسب ذیل ہیں :
مطبوعہ کتب
۱۔ ہدیہ سعیدیہ فی حکمت الطبعیہ ،
۲۔ تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی: مسئلہ شفاعت پر معرکۃ الآرا تصنیف ،
۳۔ رسالہ امتناع النظیر: اسماعیل دہلوی کے نظریہ ” خاتم النبیین کا مثل ممکن اور ممتنع بالغیر ” کی تردید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر کے ممتنع بالذات پر مناظرانہ شاہکار ،
٤۔ الروض المجود فی تحقیق حقیقۃ وحدت الوجود ،
۵۔ حاشیہ قاضی مبارک شرح سلم ،
٦۔ قصائد فتنۃ الہند ( منظوم ) : یہ دو قصیدوں پر مشتمل ہے جس میں پہلا ” ہمزیہ ” ( اس میں ۱۸٦ اشعار ) ہے اور دوسرا ” دالیہ ” ( اس میں ١٠٠ اشعار ) ، ان قصائد میں حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے اپنی جزیرۂ انڈمان میں جلاوطنی کی درد انگیز کہانیاں بیان کی ہیں ۔
۷۔ الثورۃ الہندیہ : 1857 کے انقلاب کے عینی مشاہدے پر مشتمل ایک درد انگیز تاریخی دستاویز ۔
غیر مطبوعہ کتب
۱۔ شرح تہذیب الکلام ،
۲۔ تحقیق حقیقۃ الاجسام ،
۳۔ حاشیہ افق المبین ،
٤۔ حاشیہ تلخیص الشفا ،
۵۔ رسالہ مبحث قاطیغورس ،
٦۔ رسالہ تحقیق علم و معلوم ۔
حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت:
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کی ذات نابغۂ روزگار تھی ۔ آپ عالم ، فاضل ، مدبر ، مفکر ، مدرس ، مفتی ، ماہر حکمت و فلسفہ اور ایک عظیم انقلابی قائد تھے ۔ بادشاہ ، امرا ، رؤسا ، علما ، فضلا اور ادبا و شعرا سبھی آپ کی علمی استعداد و لیاقت ، قوم کی نبض شناسی اور جنگی داؤں پیچ کے معترف تھے اور آپ کی اصابت رائے و صلابت فکر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے تھے ۔ تذکرہ نگاروں نے آپ کے اوصاف و کمالات کو بڑے والہانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔ دہلی کی تاریخ پر مدلل روشنی ڈالنے والی کتاب ‘ آثار الصنادید ‘ طبع اول میں سر سید احمد خان نے آپ کا تعارف یوں پیش کیا ہے :
” مستجمع کمالات صوری و معنوی ، جامع فضائل ظاہری و باطنی ، بناء بنائے فضل و افضال، بہار آرائے چمنستان کمال، متکی آرایک اصابت رائے ، مسند نشین افکار رسا، صاحب خلق محمدی، مورد سعادات ازلی و ابدی، حاکم محاکم مناظرات، فرمانروائے کشور محاکات، عکس آئینۂ صافی ضمیری، ثالث اثنین بدیعی و حریدی، المعی وقت و لوذعی زمان، فرزق عہد و لبید دوراں، مبطل باطل و محقق حق مولانا محمد فضل حق۔
یہ حضرت خلف الرشید ہیں جناب مستطاب مولانا فضل امام ( غفر لہ اللہ المنعام ) کے ، اور تحصیل، علوم عقلیہ و نقلیہ کی اپنے والد ماجد کی خدمت بابرکت سے کی ہے ۔ زبان قلم نے ان کے کمالات پر نظر کر کے ” فخر خاندان” لکھا ہے ۔ اور فکر دقیق نے جب سر ( را : مشدد بمعنی راز و باطن ) کار کو دریافت کیا ” فخر دو جہاں ” پایا ۔ جمیع علوم و فنون میں یکتاۓ روزگار ہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انہیں کی فکر عالی نے بنا ڈالی ہے ۔ علمائے عصر بل فضلاء دہر کو کیا طاقت ہے کہ ” اس گروہ اہل کمال کے حضور بساط مناظرہ آراستہ کر سکیں” ۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ( اپنے ) آپ کو یگانے فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا دعواۓ کمال کو فراموش کر کے نسبت شاگردی کو اپنا فخر سمجھے” ۔
مشہور صوفی شاعر امیر احمد مینائی اپنے تذکرے میں ریاست رام پور سے وابستہ ادبا و شعرا کا تعارف پیش کرتے ہوئے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کے بارے میں رقم طراز ہیں :
"افضل الفضلا، اکمل الکملا، فضائل دست گاہ ، فواضل بے پناہ جناب مولوی محمد فضل حق صاحب فاروقی ( برد اللہ مضجعہ ) وطن اصلی آپ کا خیرآباد، فنون حکمیہ میں مرتبہ اجتہاد، بڑے ادیب، بڑے منطقی، نہایت ذہین، نہایت زکی، طلیق و ذلیق، انتہا کے صاحب تدقیق و تحقیق ” ۔

 حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کو حکمت و فلسفہ میں مہارت کی بنیاد پر " معلم رابع " کا لقب دیا گیا ہے ۔ جس کی ترتیب یوں ہے :

١۔ ارسطا طالیس ( معروف بہ ارسطو ) ،
۲۔ شیخ ابو نصر فارابی ،
۳۔ شیخ بو علی سینا ،
٤۔ علامہ فضل حق خیر آبادی ۔

سخن فہمی:
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کو علوم عقلیہ و نقلیہ کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری میں بھی خوب دلچسپی تھی آپ نے بہت سے قصائد ، نعتیہ اشعار اور رباعیاں کہی ہیں ، ان کے علاوہ آپ کے دولت خانہ پر منعقد ہونے والی شعر و شاعری کی محفلوں سے بھی آپ کی سخن فہمی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جن میں آپ کے رفیق درس مفتی صدر الدین آزردہ ، شیخ محمد ابراہیم ذوق ، مرزا اسد اللہ خان غالب ، حکیم مومن خان مومن اور شاہ نصیر الدین نصیر جیسے اس دور کے نمائندہ شعرا شریک ہوا کرتے تھے ۔ علامہ یاسین اختر مصباحی رئیس احمد جعفری کی عبارت ( بحوالہ گل رعنا ص ۳۱۲ مؤلفہ حکیم عبدالحئی رائے بریلوی ) نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” دلی وہ دلی تھی کہ ایک طرف حدیث و فقہ کا دور دورہ تھا تو دوسری طرف منطق و فلسفہ کی گرم بازاری،شعر و سخن کے گلی کوچے میں چرچے، بڑے بڑے کہنہ مشق شاعر موجود ۔
ان ( علامہ فضل حق خیرآبادی) کے ہم سبق مفتی صدر الدین آزردہ ، دوستوں میں مولوی امام بخش صحبائی ، علامہ عبداللہ خان علوی ، حکیم مومن خان مومن ، مرزا اسد اللہ خان غالب ، نواب ضیاء الدین خان نیر ، شاہ نصیر الدین نصیر ، شیخ محمد ابراہیم آغا جان ، میر حسن تسکین جیسے باکمال لوگ تھے ، شام کو مولانا ( فضل حق ) کے یہاں نشست رہا کرتی ” ۔

عبدالشاہد شروانی علی گڑھی اپنی کتاب ‘ باغی ہندوستان ‘ صفحہ ۱٦٢ میں یہی واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” دہلی میں علماء کی دو جگہ نشست تھی ایک علامہ ( فضل حق ) کے یہاں ، دوسری مفتی صدر الدین آزردہ کے دولت کدے پر ۔ علامہ کے دربار میں آٹھویں روز شعرائے دہلی کا اجتماع ہوتا تھا”. جیسا کہ ابھی اس بات کا ذکر ہوا کہ مرزا اسد اللہ خان غالب حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کے احباب میں سے تھے اور آپ کے دولت کدے پر منعقد ہونے والی شعر و شاعری کی محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے ، وہ اپنا بیشتر کلام بھی حضرت علامہ کو سناتے اور ان سے مشورہ بھی لیا کرتے تھے بقول’ آزاد ‘مرزا غالب کے کلام کا شعری مجموعہ "دیوان غالب” کے انتخاب میں بھی حضرت علامہ خیرآبادی نے اہم کردار ادا کیا ہے ، چنان چہ محمد حسین آزاد ” آب حیات” میں لکھتے ہیں : ” سن رسیدہ اور معتبر لوگوں سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں ان کا دیوان بہت بڑا تھا یہ منتخب ہے ۔ مولوی فصل حق صاحب کہ فاضل بیعدیل تھے ایک زمانہ دہلی کی عدالت ضلع میں سر رشتہ دار تھے اسی عہد میں مرزا خان عرف مرزا خانی صاحب کوتوال شہر تھے وہ مرزا قتیل صاحب کے شاگرد تھے نظم اور نثر فارسی اچھے لکھتے تھے ، غرضیکہ یہ دونوں باکمال مرزا صاحب کے دلی دوست تھے ، ہمیشہ باہم دوستانہ جلسے اور شعر و سخن کے چرچے رہتے تھے ، انہوں نے اکثر غزلوں کو سنا اور دیوان کو دیکھا تو مرزا صاحب کو سمجھایا کہ یہ اشعار ہم لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے ، مرزا نے کہا : اتنا کچھ کہہ چکا اب تدارک کیا ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ خیر ہوا سو ہوا ، انتخاب کرو اور مشکل شعر نکال ڈالو مرزا صاحب نے دیوان حوالے کر دیا دونوں صاحبوں نے دیکھ کر انتخاب کیا وہ یہی دیوان ہے جو کہ آج ہم عینک کی طرح لگائے پھرتے ہیں ” مولانا الطاف حسین حالی کی ‘یادگار غالب’ میں درج ذیل واقعے سے بھی علامہ فضل حق خیرآبادی کی شعری مہارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :

” مرزا کے ایک فارسی قصیدے کے تشبیب کا یہ شعر ہے :
ہمچنان درتنق غیب ثبوتے دارند
باوجودے کہ ندارند ز خارج اعیاں

مرزا صاحب خود مجھ سے کہتے تھے کہ میں نے ثبوتے کی جگہ نمودے لکھا تھا مولوی فصل حق کو جب یہ شعر سنایا تو انہوں نے کہا کہ اعیان ثابتہ کے لیے نمود کا لفظ نامناسب ہے اس کی جگہ ثبوت بنا دو چنانچہ طبع ثانی میں انہوں نے نمود کی جگہ ثبوت بنا دیا ۔

امتیاز علی خان عرشی دیوان غالب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
” مرزا صاحب علامہ فصل حق خیر آبادی کے علم و فضل اور بلند پایہ ذوق سخن سنجی کے بے حد معترف تھے چنانچہ جب انہوں نے عرفی شیرازے کے قصیدے: ای متاع درد در بازار جان انداختہ ‘ کا جواب لکھا تو اس کی ایک نقل مولانا کے ملاحظے کے لیے بھیجی اور لکھا :
” دریں روزھا ، ھوای آن در سر افتاد کہ بیتی چند در توحید ، مجیبا للعرفی ، گفتہ آید _ چوں کوشش اندیشہ بجائی رسید کہ نہ عرفی را محل ماند و نہ مرا جای ، ناگزیر آن ابیات را بر کسی غرضہ می دارم کہ چوں منی صد و چوں عرفی صد ہزار را بسخن پرورش تواند کرد و پایۂ ہر یک بہر یک تواند نمودہ ” ۔
ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور لکھتے ہیں :
” مولوی فضل حق خیر آبادی جیسی سخن فہم اور پاکیزہ ذوق ہستی سے غالب نے اس زمانے میں بہت کچھ حاصل کیا اور ان لفظی و معنوی تعقیدوں سے پرہیز کرنے لگے جو ان کے ابتدائی کلام میں بیدل کی تقلید کا نتیجہ تھا ۔ اگر مولوی فضل حق سے ملاقات نہ ہوتی تو شاید میر تقی میر کی پیشین گوئی کی دوسری شق پوری ہو جاتی جس میں انہوں نے کہا تھا ” یہ لڑکا بھٹک جائے گا ” ۔
سیاسی سرگرمیاں:
حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کچے وطن پرست تھے آپ دل میں قومی اور ملی خدمات کا جذبہ بھی خوب موجزن تھا ، آپ وطن عزیز کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے اور جب 1857 کے انقلاب میں یہ موقع میسر آیا تو آپ نے اس میں قائدانہ کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جس وقت یہ انقلاب برپا ہوا ، اس وقت آپ الور میں تھے خبر لگتے ہی وہاں سے دہلی کے لیے نکلے اور دہلی پہنچ کر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی خصوصی مشاورت میں شریک کار رہے ، جنرل بخت خان کو تجاویز پیش کیں ، شہزادوں کے حوصلہ افزائی کی ، فوج کی خوراک اور تنخواہ کی ادائیگی کے لیے کوششیں کی اور اپنے صاحبزادے مولوی حکیم عبدالحق خیر آبادی کو بھی لگان وصول کرنے پر مامور کیا اور سب سے بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ دہلی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد جہاد کے واجب ہونے پر ایک نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اور اس کے بعد ایک فتوی مرتب فرمایا جس پر صدر الصدور مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی ، مولانا فیض احمد بدایونی اور ڈاکٹر مولوی وزیر خان اکبر آبادی وغیرہ دیگر علماءکرام کے دستخط تھے ، اس فتوی کے شائع ہوتے ہی دہلی میں 90 ہزار سپاہ جمع ہو گئی جس سے اس انقلابی شورش میں برق رفتاری سے اضافہ ہوا ۔ لال قلعہ میں برطانوی جاسوس منشی جیون لال کے روز نامچہ ۱٦/ اگست ، ۲ / ستمبر ، ٦ ، ۷ ستمبر ۱۸۵۷ء پر بالترتیب نظر ڈالنے سے حضرت علامہ فضلِ حق خیر آبادی کی سیاسی سرگرمیاں بہت واضح ہو جاتی ہیں :
” مولوی فضل حق شریک دربار ہوئے ، انہوں نے اشرفی نذر پیش کی اور صورتحال سے متعلق بادشاہ سے گفتگو کی ” ۔
” بادشاہ دربار عام میں تشریف فرما ہوئے ۔ مرزا الہی بخش ، مولوی فضل حق ، میر سعید علی خان اور حکیم عبدالحق آداب بجا لائے ” ۔
” مولوی فضل حق نے اطلاع دی کہ متھرہ کی فوج آگرہ چلی گئی ہے اور انگریزوں کو شکست دینے کے بعد شہر پر حملے کر رہی ہے ” ۔
” بادشاہ دربار خاص میں رہے ۔ حکیم عبدالحق ، میر سعید علی خان ، مولوی فضل حق ، بدر الدین خان اور دیگر تمام امرا و رؤسا شریک دربار رہے ” ۔
مندرجہ بالا اقتباسات سے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کی ۱۸۵۷ میں انقلابی سرگرمیوں واضح ثبوت ملتے ہیں ۔ جب انقلاب سرد ہوا اور انگریزی حکومت غالب ہوئی تو اس نے چن چن کر مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا ۔ ۱۹۵۹ میں سلطنت مغلیہ کی وفاداری یا فتوی جہاد یا جرم بغاوت میں علامہ فضل حق خیر آبادی کو سیتا پور سے ماخوذ کر کے لکھنو لایا گیا ، مقدمہ چلا ۔ حضرت علامہ فضل حق کے فیصلے کے لیے عدالت میں بحث ہوئی ، سرکاری وکیل کے مقابلے میں حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی خود بحث کر رہے تھے ، چند الزامات خود اپنے اوپر قائم کر کے، ان کو مثل تار عنکبوت رد کر دیا ، سرکاری گواہ بھی آپ کی شخصیت سے مرعوب ہو کر اپنے بیان سے پلٹ گیا اور کہا کہ یہ وہ مولانا نہیں ہیں جنہوں نے جہاد کا فتوی دیا تھا ، جج بھی آپ کی شخصیت سے متاثر تھا ، ظاہر یہ ہو رہا تھا کہ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی بری ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا دن آخری دن تھا آپ نے اپنے اوپر عائد الزامات کو ایک ایک کر کے رد کر دیا اور جس مخبر نے فتوی کی خبر دی تھی اس کے بیان کی تصدیق و توثیق کی اور فرمایا :
” اس گواہ نے سچ کہا تھا ، وہ فتوی صحیح ہے ، میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے ” ۔
آپ کی باتیں سن کر کے جج نے حبس دوام کا فیصلہ سنایا اور آپ کو انڈمان نکوبار بھیج دیا گیا ۔ جہاں آپ نے ناقابل برداشت تکلیفیں اٹھائیں ، چنان چہ قید و بند کی صعبتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے قصیدہ میں لکھتے ہیں :
” لجوی لہ بجوانحی ایراء
جمد الدموع و ذابت الاحشاء”
( ترجمہ :سوزش قلب سے میری پسلیوں میں آگ بھڑک اٹھی ، آنسو خشک ہو گئے اور اعضا پگھل گئے ۔ ) اس پورے قصیدے میں حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی پر درد داستان بیان کی ہے ۔
وفات:
مورخین نے لکھا ہے کہ جب آپ کا انتقال ہوا ، اس وقت آپ کے صاحبزادے حکیم عبدالحق خیر آبادی آپ کی آزادی کا پروانہ لیے ہوئے انڈمان پہنچے تو انہوں نے ایک جنازہ دیکھا ، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی ایک سال ۱۱ ماہ کی مدت جیل میں گزار کر نہ صرف اس قید و بند کی مشکلات سے آزاد ہوگیے بلکہ اس دار فانی کو بھی خیرآباد کہہ دیا ۔ آپ کی وفات کی تاریخ ۱۲/ صفر ۱۲۷۸ھ مطابق ۲۰/ اگست ۱۸٦١ء ہے ۔ آپ کا مزار جزیرۂ انڈمان نکوبار کی راجدھانی پورٹ بلیر سے پانچ کلومیٹر دور ساؤتھ پوائنٹ میں واقع ہے ، جسے ” مزار پہر "( Mazar pahar ) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ آپ کی موت کا تذکرہ مرزا غالب نے شیخ لطیف احمد بلگرامی کے نام ایک خط میں یوں کیا ہے :
” کیا لکھوں اور کیا کہوں ؟ نور آنکھوں سے جاتا رہا اور دل سے سرور ۔ ہاتھ میں رعشہ طاری ہے ، کان سماعت سے عاری ہیں :
عتاب عروساں در آمد بجوش
صراحی تہی گشت وساقی خاموش
فخر ایجاد تکوین مولانا فضل حق ایسا دوست مر جائے ۔ غالب نیم مردہ نیم جاں رہ جائے :
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی ” ۔
جناب امیر البیان سہروردی نے آپ کی شان میں کیا خوب لکھا ہے :
وہ امام فلسفہ وہ نازش علم و سخن
جس نے زندہ کر دیا تھا قصۂ دار و رسن

موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہنستا رہا
اللہ اللہ جنگ آزادی کے حر کا بانکپن

کانپ اٹھا اس کے فتووں سے فرنگی سامراج
اس کے نعروں سے ہوئے بیدار شیران وطن

مرد حر،غازی، مجاہد، حق پرست و فضل حق
تھا کتاب حریت کا بے گماں پہلا ورق ۔

تحریر: محمد اختر علیمی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے